Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 20
كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ١ؕ وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا
كُلًّا : ہر ایک نُّمِدُّ : ہم دیتے ہیں هٰٓؤُلَآءِ : ان کو بھی وَهٰٓؤُلَآءِ : اور ان کو بھی مِنْ : سے عَطَآءِ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب وَ : اور مَا كَانَ : نہیں ہے عَطَآءُ : بخشش رَبِّكَ : تیرا رب مَحْظُوْرًا : روکی جانے والی
ہر تیرے پروردگار کی بخشش سے ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی بھی اور ان کی بھی۔ اور تیرے رب کی بخشش کسی پر بند نہیں
كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۗءِ وَهٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّكَ ۭ وَمَا كَانَ عَطَاۗءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا۔ رب کی عطاء بخشش عام ہے : لفظ " کل " جب مختلف جماعتوں کے ذکر کے بعد اس طرح آئے جس طرح یہاں آیا ہے تو وہ معرفہ کے حکم میں ہوجاتا ہے۔ یعنی اس سے وہ جماعتیں مراد ہوتی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے رب کی عطاء و بخشش کا دروازہ مذکورہ دونوں گروہوں میں سے کسی پر بھی بند نہیں۔ جو لوگ آخرت سے بالکل بےپروا رات دن دنیا ہی کی طلب میں سرگرم ہیں، ان کو بھی خدا اس دنیا میں سے جو کچھ ان کے لیے مقدر کررکھا ہے، دیتا ہے۔ یہ نہیں کرتا کہ ان کی خدا فراموشی اور آخرت فراموشی کے جرم میں ان کو دنیسا سے محروم کردے۔ اسی طرح جو لوگ آخرت کے طالب بنتے ہیں خدا اس دنیا میں سے ان کا مقدر حصہ دیتا ہے۔ یہ نہیں کرتا کہ دنیا سے بےپروائی کے سبب سے ان کو دنیا سے محروم کردے بلکہ ان کو اس دنیا میں سے بھی ان کا حصہ دیتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اپنی کوشش کا بھرپور صلہ پائیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ جب اصل حقیقت یہ ہے تو آدمی اس فانی اور حقیر دنیا کے پیچھے اپنے آپ کو آخر کی ابدی اور لازوال نعمتوں سے کیوں محرم کردے۔ وہ راستہ کیوں نہ اختیار کرے جس پر چل کر آخرت کی ابدی نعمتوں کا بھی حقدار بنے اور اس دنیا میں سے بھی جو کچھ اس کے لیے مقدر ہے اس سے بہرہ مند ہو۔
Top