Tadabbur-e-Quran - Maryam : 26
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ
فَكُلِيْ : تو کھا وَاشْرَبِيْ : اور پی وَقَرِّيْ : اور ٹھنڈی کر عَيْنًا : آنکھیں فَاِمَّا تَرَيِنَّ : پھر اگر تو دیکھے مِنَ : سے الْبَشَرِ : آدمی اَحَدًا : کوئی فَقُوْلِيْٓ : تو کہدے اِنِّىْ نَذَرْتُ : میں نے نذر مانی ہے لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے صَوْمًا : روزہ فَلَنْ اُكَلِّمَ : پس میں ہرگز کلام نہ کرونگی الْيَوْمَ : آج اِنْسِيًّا : کسی آدمی
پس کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو۔ اور اگر کوئی آدمی معترض ہو تو اس سے اشارے سے کہہ دیجیو کہ میں نے خدائے رحمان کے لیے روزے کی منت مان رکھی ہے تو آج میں کسی انسان سے کوئی بات نہیں کرسکتی
فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّي عَيْنًا فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا۔ یعنی کھاؤ پیو اور بچہ کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کرو اور روزے کی منت مان لو۔ اگر کوئی شخص آجائے اور کچھ پوچھنا ہے تو اس سے کہہ دینا کہ میں نے روزے کی منت مان رکھی ہے، میں آج کسی سے بات نہیں کرسکتی۔ خاموشی کا روزہ : یہود کی شریعت میں خاموشی بھی روزے کے شرائط میں تھی۔ اگرچہ آیت میں اس بات کی تصریح نہیں ہے کہ فرشتہ نے حضرت مریم کو روزہ رکھ لینے کی بھی ہدایت کی لیکن فحوائے کلام سے یہ بات واضح ہے۔ جب فرشتہ ان کو یہ ہدایت کرتا ہے کہ " اگر کوئی شخص کچھ پوچھے تو اس سے یہ کہ دینا کہ میں روزے سے ہوں، کسی سے بات نہیں کرسکتی " تو اس سے آپ سے آپ یہ بات لازم آتی ہے کہ ان کو روزہ رکھنے کی بھی ہدایت ہوئی۔ ورنہ فرشتہ آخر غلط بیان کی ہدایت کس طرح کرسکتا ہے۔ ممکن ہے یہاں کسی کو یہ شبہ ہو کہ حضرت مریم جس حال میں تھیں اس میں تو عورت کو روزہ رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ یہود کے ہاں مجرد خاموشی کا بھی روزہ تھا اور یہ روزہ ہر حال میں رکھا جاسکتا تھا۔ اسفار یہود میں " خاموش رہو " کی تعبیر اللہ کو یاد کر ھنے اور اس کی عبادت کرنے کے لیے جگہ جگہ اسعمال ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو زکریا باب 2۔ 13۔ " قول " بمعنی اشار : ایک بات اس آیت میں بعض لوگوں کو اور کھٹکے گی۔ وہ یہ کہ جب یہ روزہ خاموشی کا روزہ تھا تو یہاں لفظ " قولی " (کہہ دینا) کے استعمال کا کیا محل تھا ؟ پھر تو کوئی لفظ ایسا استعمال ہوتا جس کے معنی اشارہ کرنے کے ہوتے اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ عربی میں " قال " اشارہ کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ قال برمحہ، (اس نے اپنے نیزے سے اشارہ کیا) قال بیدہ ہکذا (اس نے اپنے ہاتھ اس طرح اشارہ کیا) وغیرہ محاورات عربی میں معروف ہیں۔ آخر الذکر محاور تو بعض حدیثوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔
Top