Tadabbur-e-Quran - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
(اور ان کو حکم دیں گے) کہ تم میں سے ہر ایک کو بہرحال اس میں داخل ہونا ہے۔ یہ تیرے رب کے اوپر ایک طے شدہ امر واجب ہے
وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا۔ حتم کے معنی واجب اور لازم کے ہیں۔ اور ضمیر خطاب کے مخاطب وہی مجرمین ہیں جن کا ذکر اوپر سے چلا آ رہا ہے۔ اوپر کی بات بصیغہ غائب کہی گئی ہے اور یہ بات ان کو مخاطب کرکے ارشاد ہوئی۔ ان دونوں اسلوبوں کے الگ الگ فائدے ہیں۔ جس طرح غائب کا اسلوب عدم التفات پر دلیل ہوتا ہے اسی طرح خطاب کا اسلوب شدت عتاب پر دلیل ہوتا ہے۔ قرآن مجید اور کلام عرب میں اس کی مثالیں بہت ہیں کہ غائب کا اسلوب کلام دفعۃً خطاب کے اسلوب میں بدل گیا ہے۔ یہاں بھی اسی نوع کی تبدیلی ہوئی ہے۔ چونکہ مقصود شدت غضب کا اظہار ہے اس وجہ اللہ تعالیٰ ان مجرموں کو خطاب کرکے فرمائے گا کہ اب تمہارے لیے داد و فریاد اور عذرومعذرت کا وقت گزر گیا، اب تم میں سے بلا استثناء ہر ایک کو اس جہنم میں اترنا ہے۔ ساتھ ہی پیغمبر ﷺ کو اطمینان دلایا کہ یہ امر بالکل قطعی اور فیصل شدہ ہے، اس کو تمہارے رب نے اپنے اوپر لازم ٹھہرا لیا ہے۔ ایک دن تم اپنے دشمنوں کا یہ انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔ آیات کی یہ تاویل بالکل واضح ہے لیکن ہمارے مفسرین نے اس کا مخاطب تمام بنی نوع انسان کو مان لیا ہے، چناچہ وہ ہر شخص کے لیے، خواہ نیک ہو یا بد، جہنم سے گزرنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ بس اتنی خیریت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جہنم پر پل صراط کے نام سے ایک پل ہوگا جس پر سے نیک لوگ تو گزر جائیں گے۔ البتہ وہ لوگ جہنم میں پڑے چھوڑ دیے جائیں گے جو برے ہوں گے۔ یہ غلط فہمی مفسرین کو صرف اسلوب کلام کے نہ سمجھنے کے سبب سے ہوئی ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ ان کی اکثر لغزشیں اسی چیز کا نتیجہ ہیں۔ تعجب ہے کہ اتنی سخت بات کہتے ہوئے ان حضرات کو قرآن کی وہ آیت یاد نہیں آئی جو سورة انبیاء میں نیکوکاروں سے متعلق وارد ہے۔ فرمایا ہے "إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ (101) لا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ (102) لا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الأكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (103): بیشک جن کے لیے ہمارا اچھا وعدہ ہوچکا ہے وہ اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے، وہ اس کا کھٹکا بھی نہیں سنیں گے اور وہ اپنی چاہت کی نعمتوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان کو سب سے بڑی گھبراہٹ کی ساعت غمگین نہیں کرے گی اور فرشتے اس بشارت کے ساتھ ان کا خیر مقدم کریں گے کہ یہ ہے آپ لوگوں کا وہ دن جس کا وعدہ کیے جا رہے تھے " (انبیاء : 101 تا 103) تاویل کی اس قسم کی غلطیوں سے محفوظ رہنے کے لیے قرآن پر تدبر کرنے والوں کو ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی ؒ کی کتاب " اسالیب القرآن " کا گہری نظر سے مطالعہ کرڈالیں۔
Top