Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 103
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَیْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ اٰمَنُوْا : ایمان لاتے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگار بنتے لَمَثُوْبَةٌ : تو ٹھکانہ پاتے مِنْ : سے عِنْدِ اللہِ : اللہ کے پاس خَيْرٌ : بہتر لَوْ کَانُوْا يَعْلَمُوْنَ : کاش وہ جانتے ہوتے
اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو اللہ کا ثواب ان کے لیے کہیں بہتر تھا کاش وہ سمجھتے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ : اس آیت کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے آیت 101 کو بھی جو اوپر گزری ہے نگاہ میں رکھیے۔ وہاں فرمایا تھا کہ انہوں نے خدا کی کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا اور سحر و نجوم اور گنڈے تعویذ وغیرہ کے فتنوں میں پڑے رہ گئے۔ اب یہاں فرمایا کہ اگر وہ اللہ کے آخری رسول اور اس کی آخری کتاب پر ایمان لاتے اور ان فتنوں سے بچتے جن میں وہ مبتلا ہیں تو اس کا اجر بہت بڑا تھا۔ لیکن یہ اپنی رذالت اور پست ہمتی کی وجہ سے علوم سفلیہ کی دکانداری ہی کو بہت بری چیز سمجھتے ہیں۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں کہ اللہ کی کتاب پر ایمان اور اس کے بخشے ہوئے علم کا اجر وثواب خدا کے ہاں کیا ہے۔ کاش وہ اس بات کو سمجھتے۔ مجموعہ آیات 97 تا 103 کی چند اہم باتیں : اس مجموعہ آیات کے اندر بھی چند باتیں ایسی ہیں جو مزید وضاحت کی محتاج ہیں تاکہ اچھی طرح ذہن نشین ہوجائیں۔ ایک یہ کہ چھوٹی گمراہی بڑی گمراہیوں کے دروازے کھول دیتی ہے۔ بسا اوقات ایک گمراہی یا بد عقیدگی بظاہر معمولی نظر آتی ہے لیکن وہ اپنے اندر اتنی گمراہیاں اور بدعقیدگیاں چھپائے ہوئے ہوتی ہے کہ اس سے آدمی کے سارے دین و ایمان کی جڑیں اکھڑ کے رہ جاتی ہیں۔ یہود قرآن کی مخالفت کے جوش میں حضرت جبریل امین کے بھی مخالف بن گئے اور اس چیز کو انہوں نے ایک معمولی بات سمجھا۔ قرآن نے جب اس کے مضمرات واضح کیے تو معلوم ہوا کہ جبریل کی مخالفت تنہا جبریل ہی کی مخالفت نہیں ہے بلکہ یہ خود اللہ تعالیٰ کی بھی مخالفت ہے، اس کے تمام فرشتوں کی مخالفت ہے اور اس کے تمام رسولوں کی مخالفت ہے۔ پھر ساتھ ہی اس مخالفت کے ایک اور لازمی نتیجہ کو بھی واضح فرمایا جو مذکورہ نتائج سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ وہ یہ کہ جو لوگ ایسے کٹر کافر ہیں کہ اللہ، ملائکہ اور انبیاء سب کے دشمن ہیں۔ اللہ ان کا دوست کس طرح ہوسکتا ہے، اس وجہ سے لازماً ایسے کافروں کا اللہ بھی دشمن ہے، غور کیجیے کہ بات کہاں سے کہاں پہنچی۔ دوسری بات جو مذکورہ بالا اصول ہی پر مبنی ہے یہ ہے کہ اللہ تعالی، اس کے ملائکہ اور اس کے نبیوں اور رسولوں میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہوسکتی۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی تکذیب سب کی تکذیب اور کسی ایک کی بھی دشمنی سب کی دشمنی ہے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کا عقیدہ یہ بتایا گیا ہے کہ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (بقرہ :285) (اس کے رسولوں کے درمیان ہم کسی قسم کی تفریق نہیں کرتے)۔ مزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اسی اصول پر وہ حدیث بھی مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ﷺ نے خبر دی ہے کہ من عادی لی ولیا فقد بارزنی بالحرب (جس نے میرے کسی دوست کے ساتھ دشمنی کی تو اس نے خود مجھے اعلان جنگ دیا) اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے جاننے اور ماننے والے ہیں وہ درحقیقت اسی ملت اور اسی حزب سے تعلق رکھتے ہیں جس میں انبیاء و رسل اور ملائکہ شامل ہیں۔ جس طرح ان میں سے کسی کی دشنی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہے اسی طرح صلحاء اور ابرار میں سے بھی کسی کی دشمنی بالواسطہ اللہ تعالیٰ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ تیسری یہ کہ جس طرح سحر، شعبدہ، نجوم، حاضرات، فال اور کہانت وغیرہ کے قسم کی چیزیں خدا اور اس کی شریعت سے انسان کو برگشتہ کرنے والی ہیں، اسی طرح اشیا اور کلمات کے روحانی خواص یعنی گنڈے تعویذ اور جھاڑ پھونک کا علم بھی انسان کے لیے ایک فتنہ اور کتاب و شریعت سے منحرف کرنے والا ہے۔ کتاب اللہ کے ساتھ مضبوط اور مستحکم ربط پیدا کرنے کے لیے صحیح راہ یہی ہے کہ آدمی نہ صرف سحر و ساحری سے دور رہے، بلکہ اس دوسری قسم کی چیزوں سے بھی حتی الوسع احتراز ہی کرے۔ انسان جب عملیات وغیرہ کے چکر میں پھنس جاتا ہے تو اس فتنہ میں لازما گرفتار ہوجاتا ہے جس سے ہاروت و ماروت نے متنبہ کیا تھا اور پھر ان تمام مفاسد کا ظہور میں آنا لازمی ہے جو یہود کے ہاتھوں ظہور میں آئے اور جن کے سبب سے وہ کتاب اللہ کی روشنی میں سے محروم ہوئے۔
Top