Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 209
فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْكُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
فَاِنْ : پھر اگر زَلَلْتُمْ : تم ڈگمگا گئے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْكُمُ : تمہارے پاس آئے الْبَيِّنٰتُ : واضح احکام فَاعْلَمُوْٓا : تو جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اگر ان کھلی ہوئی تنبیہات کے بعد بھی جو تمہارے پاس آچکی ہیں، پھسل گئے تو جان رکھو کہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔
“ بینات ”سے مراد وہ تنبیہاو تہدیدات بھی ہیں جو شیطان کی چالوں اور اس کے فتنوں سے آگاہ کرنے کے لیے نہایت تفصیل کے ساتھ قرآن میں بیان ہوئی ہیں اور وہ واضح اور قطعی ہدایت بھی جو ایمان و اسلام کے تقاضوں کو بیان کرنے کے لیے وارد ہوئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر سورج کی طرح روشن ہدایت و تنبیہات کے بعد بھی تم نے (خطاب منافقین ہی سے ہے) اپنے ازلی اور کھلے ہوئے دشمن ہی کے نقش قدم کی پیروی کی تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ خدا کی پکڑ سے تم کسی طرح نہیں بچ سکتے۔ خدا عزیز و حکیم ہے۔ عزیز کی صفت کے حوالہ سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ ایک تو اس حقیقت کی طرف کہ خدا کوئی کمزور و ناتواں ہستی نہیں ہے بلکہ وہ غالب و توانا ہے تو جو اس کی تنبیہا کے باوجود شیطان کی پیروی کریں گے ان کو وہ اس عذاب میں ضرور پکڑے گا جو شیطان کے پیرؤوں کے لیے اس نے مقدر کر رکھا ہے اور جس کی اس نے پہلے سے خبر دے رکھی ہے۔ دوسرا اس طرف کہ جو لوگ ان واضح ہدایات کے بعد بھی راہ حق کو چھوڑ کر شیطان ہی کی پیروی اختیار کریں گے وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑیں گے بلکہ اپنا ہی بگاڑیں گے اس لیے کہ خدا عزیز ہے یعنی ہر نفع و نقصان سے بالا تر۔ اسی طرح حکیم کی صفت بھی یہاں دو حقیقتوں کو نمایاں کر رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس دنیا کا خالق حکیم ہے اور اس کے حکیم ہونے کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ وہ اپنی ہدایت پر جمے رہنے والوں اور اس سے منحرف ہوجانے والوں کے درمیان ان کے انجام کے لحاظ سے امتیاز کرے، اگر وہ ان میں کوئی امتیاز نہ کرے بلکہ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دے یا دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ایک حکیم نہیں بلکہ ایک کھلنڈرا ہے اور یہ دنیا ایک پر حکمت اور بامقصد کارخانہ نہیں بلکہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماش ہے۔ دوسری یہ کہ بدی اور نیکی کے نتائج کے ظہور میں جو دیر سویر ہوتی ہے وہ سب حکمت پر مبنی ہوتی ہے، بسا اوقاق شیطان کے پیرو کاروں کو اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے اور بسا اوقت اہل حق کسی آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، اس سے نہ تو اہل باطل کو مغرور ہونا چاہیے نہ اہل حق کو مایوس۔ بلکہ یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ مہلت اور یہ آزمائش دونوں خدائے حکیم و دانا کی حکمت پر مبنی ہے اور اس حکمت کے تحت اس کے قوانین اور ان کے نتائج بالکل قطعی اور اٹل ہیں، ان میں سرِ مو فرق ممکن نہیں ہے۔
Top