Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 284
فَهَزَمُوْهُمْ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۙ۫ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَهٗ مِمَّا یَشَآءُ١ؕ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ١ۙ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
فَهَزَمُوْھُمْ : پھر انہوں نے شکست دی انہیں بِاِذْنِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم سے وَقَتَلَ : اور قتل کیا دَاوٗدُ : داود جَالُوْتَ : جالوت وَاٰتٰىهُ : اور اسے دیا اللّٰهُ : اللہ الْمُلْكَ : ملک وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَعَلَّمَهٗ : اور اسے سکھایا مِمَّا : جو يَشَآءُ : چاہا وَلَوْ : اور اگر لَا : نہ دَفْعُ : ہٹاتا اللّٰهِ : اللہ النَّاسَ : لوگ بَعْضَهُمْ : بعض لوگ بِبَعْضٍ : بعض کے ذریعہ لَّفَسَدَتِ : ضرور تباہ ہوجاتی الْاَرْضُ : زمین وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب خدا ہی کا ہے۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، خدا اس کا تم سے حساب لے گا، پھر جس کو چاہے گا بخشے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
“ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے ”یہ جملہ اپنے اندر بیک وقت تین مفہوم رکھتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ہر چیز خدا ہی کی ملکیت ہے، دوسرا یہ کہ ہر چیز اسی کے اختیار و تصرف میں ہے، تیسرا یہ کہ بالآخر ہر چیز کا مرجع خدا ہی ہے۔ اردو میں کوئی ایسا ترجمہ اس کا جوا ان تینوں مفہموں کو بیک اٹھا لے میری سمجھ میں نہیں آیا۔ دل کی پوشیدہ باتوں کے محاسبے کا مفہوم : اَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ ، دل کی پوشیدہ باتوں کا محاسبہ کرنے سے یہ مراد نہیں کہ دل میں جو خیالات اور وسوسے گزرتے رہتے ہیں ان کا بھی محاسبہ ہوگا بلکہ اس سے صرف وہ عزائم مراد ہیں جو مضبوط ارادے کے ساتھ دل میں موجود ہیں لیکن کسی مجبوری یا مزاحمت کے سبب سے وہ ظاہر نہ ہوسکے یا عمل میں نہ آسکے۔ مثلا ایک شخص اگر کسی کے قتل کا دل میں پختہ ارادہ رکھتا ہے تو ہرچند کسی خوف یا مجبوری کے سبب سے اس کا ارادہ بروئے کار نہ آسکے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں اس ارادے پر اس کی پکڑ ہوگی۔ خدا کی مشیت اس کی حکمت کے ساتھ ہے : فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الایۃ اور اس طرح کی دوسری آیات میں، جیسا کہ ہم بار بار اپنی اس کتاب میں واضح کرچکے ہیں، اصل زور جس بات پر ہوتا ہے وہ اس پر ہوتا ہے کہ خدا کی مشیت میں کوئی مزاحمت کرنے والا نہیں ہے اور مقصود اس سے شرک کی نفی ہوتی ہے۔ یہ مقصد نہیں ہوتا ہے کہ خدا کی اس مشیت کے لیے سرے سے کوئی ضابطہ و قاعدہ ہی نہیں ہے۔ خدا کی ہر مشیت اس کی حکمت کے ساتھ ہے۔ چناچہ یہ مغفرت اور عذاب کا معاملہ بھی اسی ضابطہ حکمت کے تحت عمل میں آئے گا جو اس کے لیے اس نے مقرر فرما رکھا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی اور کے لیے اس میں کسی مداخلت کی گنجائش نہیں ہے۔ آیت کا دو گونہ ربط : اس پوری آیت کے موقع و محل پر غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک پہلو سے تو اپنے ماسبق سے مربوط ہے اور دوسرے پہلو سے یہ سورة کے خاتمہ کی نہایت جامع اور مؤثر تمہید ہے۔ اوپر والی آیت میں فرمایا تھا کہ شہادت کو نہ چھپاؤ، جو شہادت کو چھپاتا ہے اس کا دل آلودہ معصیت ہوجاتا ہے۔“ اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے باخبر ہے ”اب اس کے ساتھ اگر یہ مضمون لگا دیجیے کہ“ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے، اللہ تمہارے ظاہر و باطن سب کا محاسبہ کرنے والا ہے، پھر جس کو چاہے گا وہ بخشے گا اور جس کو چاہے گا، عذاب دے گا ”تو گویا بات پوری طرح مدلل بھی ہوگئی اور مکمل بھی۔ یہ آیت کا ربط ماسبق سے ہوا۔ آگے سے اس کا ربط، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے، یہ ہے کہ یہ توحید کی آیت ہے۔ احکام و قوانین کے باب میں جس طرح نماز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح عقائد کے باب میں توحید کو اساس دین کا مقام حاصل ہے، چناچہ یاد ہوگا کہ جہاں سے اس سورة میں امت کے لیے تعلیم شریعت کا باب شروع ہوا ہے وہاں سب سے پہلے توحید کا بیان ہوا ہے اس کے بعد نماز کا۔ اب خاتمے پر امت کو کامل حوالگی اور سپردگی کی تعلیم دینے کے یلے توحید کی پھر یاد دہانی کی اور یاد دہانی کا انداز تعلیم سے زیادہ تنبیہ کا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ امت اس امانت کی گراں باریوں کو سمجھے اور غلط سہاروں پر اعتماد کرنے کے بجائے صرف اللہ وحدہٗ لاشریک لہ کے آگے جواب دہی کے لیے تیار رہے۔
Top