Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 33
قَالَ یٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْ١ۙ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۙ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ
قَالَ : اس نے فرمایا يَآ : اے اٰدَمُ : آدم اَنْبِئْهُمْ : انہیں بتادے بِاَسْمَآئِهِمْ : ان کے نام فَلَمَّا : سو جب اَنْبَاَهُمْ : اس نے انہیں بتلایا بِاَسْمَائِهِمْ : ان کے نام قَالَ : فرمایا اَلَمْ : کیا نہیں اَقُلْ : میں نے کہا لَكُمْ : تمہیں اِنِّیْ : کہ میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں غَيْبَ : چھپی ہوئی باتیں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاَعْلَمُ : اور میں جانتا ہوں مَا : جو تُبْدُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو وَمَا : اور جو كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ : تم چھپاتے ہو
کہا اے آدم ! ان کو بتآ ان لوگوں کے نام تو جب اس نے بتائے ان کو ان لوگوں کے نام تو اس نے کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید کو میں ہی جانتا ہوں اور میں جانتا ہوں اس چیز کو جس کو تم ظاہر کرتے ہو اور جس کو تم چھپاتے تھے
اَلَمْ اَقُلْ لَكُمْ اِنِّي اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ: یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کا حوالہ دیا ہے جو اوپر آیہ ۳۰ میں گزر چکا ہے یعنی اِنِّي اَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُوۡنَ (میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے) پہلے یہ بات اجمال کے ساتھ کہی گئی تھی لیکن جب فرشتوں کو اچھی طرح قائل کر دیا گیا اور وہ قائل ہو بھی گئے تو پھر اسی بات کو مزید وضاحت کے ساتھ فرمایا تاکہ یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے کہ اس کارخانہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ساری حکمتیں اور مصلحتیں صرف اسی کو معلوم ہیں جس نے اس کارخانے کو بنایا ہے اور جو اس کو چلا رہا ہے۔ان حکمتوں اور مصلحتوں کو فرشتے بھی، جو خدا سے اس قدر قرب رکھتے ہیں، نہ جانتے ہیں اور نہ خدا کے بتائے بغیر جان سکتے ہیں۔ اس وجہ سے قدرت کا کوئی فعل اگر بے حکمت و بے مصلحت نظر آئے تو اس کی بنا پر قدرت کو نشانہ اعتراض یا خود اپنے آپ کو شکوک وشبہات کا مریض بنا لینے کے بجائے آدمی کو چاہئے کہ اس چیز کو اپنے علم کی کمی پر محمول کرے اور فرشتوں کی طرح سُبۡحَانَکَ لَاعِلۡمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمۡتَنَا اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡم۔ کا اقرار کرے، کیونکہ خدائے علیم وحکیم کا کوئی فعل بھی حکمت اور مصلحت سے خالی نہیں ہے لیکن اس کے سارے کاموں کی حکمتوں اور مصلحتوں کو سمجھنا نہ فرشتوں کے لئے ممکن ہے، نہ جنوں کے لئے اور نہ انسانوں کے لئے۔ اس کے ساتھ یہ جو فرمایا ہے کہ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوۡنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوۡنَ (اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپا رہے تھے) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے سوال کو بھی سمجھتا تھا اور اس اصل وجہ کو بھی جانتا تھا جس سے یہ سوال پیدا ہوا تھا۔ وہ وجہ یہ تھی کہ تم آدم علیہ اسلام کی خلافت کی اسکیم کے مضمرات سے بے خبر تھے، تم چاہتے تھے کہ وہ تم پر ظاہر کئے جائیں اس مقصد کے لئے تم نے اس اسکیم کے برے پہلوؤں کی طرف جو واضح طور پر تمہیں نظر آئے تم نے بہ شکل سوال اشارہ کیا تاکہ تم پر اس کے وہ پہلو کھولے جائیں جو خیر کے ہیں۔ چنانچہ آدم کی ذریت کا مشاہدہ کرا کے اور ان کے ناموں سے تمہیں آگاہ کر کے تمہاری یہ خواہش پوری کر دی گئی۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر اپنے ایک احسان کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ تمہارے سوال کے ظاہر وباطن کا جواب تمہیں دے دیا گیا۔ اس میں فرشتوں کے لئے کسی علامت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔
Top