Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم لوگوں کو وفاداری کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ؟ کیا تم سمجھتے نہیں ؟
بِرّ:“بِرّ”عربی زبان میں ایفائے عہد، وفاداری اور ادائے حقوق کے معنی میں آتا ہے۔ حقوق میں ہر قسم کے حقوق شامل ہیں۔ بنیادی اور حقیقی بھی۔ مثلاً خدا کی فرمانبرداری، والدین کی اطاعت اور خلق کے ساتھ ہمدردی۔ پھر آگے چل کر اس میں وہ حقوق بھی شامل ہوجاتے ہیں جو قول واقرار اور معاہدات سے پیدا ہوتےہیں۔ اسی وجہ سے یہ لفظ احسان اور نیکی کی تمام قسموں پر حاوی ہے اور عدم کا بھی ہم معنی ہے۔ اپنے استعمالات کے لحاظ سے یہ لفظ اثم (حق تلفی) عقوق (والدین کی نافرمانی) غدر (بے وفائی) اور ظلم کا ضد ہے۔ بَرٌّ اور بَارٌُ اس سے صفت کے صیغے استعمال ہیں مثلاً کہیں گے بَرٌُ بِوَالِدِہ وہ اپنے باپ کا فرمانبردار ہے۔ برَّ بِالۡقَسم کے معنی ہیں اس نے اپنی قسم پوری کی۔ قرآن مجید میں حضرت یحیٰی علیہ السلام کی تعریف میں وارد ہے۔ وَکَانَ تَقِیًّا، وَبَرًّا بِوَالِدَیْْہِ وَلَمْ یَکُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا (۱۳۔۱۴ مریم) وہ پرہیزگار اور اپنے ماں باپ کا فرمانبردار تھا، سرکش اور نافرمان نہ تھا۔ دوسری جگہ فرمایا ہے لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (۹۲ اٰل عمران) تم خدا کی فرمانبرداری کا حقیقی درجہ حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم محبوب رکھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف میں ہے اِنَّہٗ ہُوَ الْبَرُّ الرَّحِیْمُ (۲۸ طور) بے شک وہ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا اور مہربان ہے۔ نیز فرمایا ہے وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (۲ مائدہ) اور تعاون کرو ایفائے حقوق اور تقویٰ کے کاموں میں اور نہ تعاون کرو حق تلفی اور تعدی کے کاموں میں۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ“بِرّ”کا لفظ ایک پہلو سے نیکی اور بھلائی کے تمام کاموں پر مشتمل ہے لیکن اپنے خاص مفہوم کے لحاظ سے یہ حقوق اور فرائض کے ایفا کے لئے آتا ہے۔ اس آیت کے مخاطب یہو د کے علماء اور اکابر ہیں۔ آخر کا ٹکڑا وَأَنْتُمْ تَتْلُوۡنَ الْكِتٰبَ- اور حال یہ ہے کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، ہمارے اس خیال کی نہایت واضح طور پر تائید کر رہا ہے۔ ان علما اور اکابر کو مخاطب کر کے یہ بات کہی جارہی ہے کہ تم عوام کو تو بڑے زوروں سے حقوق اور فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتے ہو لیکن یہ تلقین کرتے وقت اپنے آپ کو بالکل بھول جاتے ہو۔ لوگوں کو تو نصیحت کرتے ہو کہ اپنے مال تمہارے حوالہ کریں لیکن خود تمہارے اوپر خدا کے اور غریبوں کے جو حقوق ہیں ان کا خیال تمہیں کبھی نہیں آتا، بلکہ تم لوگوں کا دیا ہوا مال ہڑپ کر کے بیٹھ جاتے ہو۔ تم نے دوسروں پر تو اپنی اطاعت پوری سطوت کے ساتھ واجب کر رکھی ہے، یہاں تک کہ تم ان کے رب بن بیٹھے ہو لیکن خود خدا کی اطاعت اور اس کی فرمانبرداری سے بالکل آزاد ہو، نماز اور زکوٰۃ کو ضائع کر کے تم نے پورے دین کو بالکل برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ علمائے یہود کی اس حالت کی طرف حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی نہایت بلیغ الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے: “اس نے کہا اے شرع کے عالمو، تم پر بھی افسوس کہ تم ایسے بوجھ جن کا اٹھانا مشکل ہے آدمیوں پر لادتے ہو اور آپ ایک انگلی بھی ان بوجھوں کو نہیں لگاتے۔”(لوقا باب ۱۱: ۴۷) غور کیجئے، انجیل کے ان الفاظ اور قرآن مجید کے مذکورہ بالا الفاظ میں کتنی مطابقت ہے۔ وَأَنْتُمْ تَتْلُوۡنَ الْكِتٰبَ (اور حال یہ ہے کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو) یعنی تم دین و شریعت کے عالم ہو اور جانتے ہو کہ ازروئے عقل و نقل تم پر شریعت کی ذمہ داریاں دوسروں کی نسبت سے کہیں زیادہ ہیں۔
Top