Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 43
وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ
وَاَقِیْمُوْا : اور تم قائم کرو الصَّلَاةَ : نماز وَآتُوْا : اور ادا کرو الزَّکَاةَ : زکوۃ وَارْکَعُوْا : اور رکوع کرو مَعَ الرَّاكِعِیْنَ : رکوع کرنے والوں کے ساتھ
اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو
وَأَقِيمُوا الصَّلٰوةَ وَآتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوۡا مَعَ الرَّاكِعِيۡنَ: اقامت صلوٰۃ کی پوری تحقیق شروع میں بیان ہو چکی ہے۔ یہاں اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ زکوٰۃ: زکوٰۃ کا لفظ زکا – یزکوا سے ہےجس کے معنی پاک ہونے کے ہیں۔ عربی میں نفس زکیہ اس نفس کو کہتے ہیں جو گناہوں سے پاک صاف ہو۔ دوسرا مفہوم اس مادے کے اندر بڑھنے اور نشوونما پانے کا ہے۔ زَکَا الزَّرۡعُ کے معنی ہوں گے، کھیتی بڑھی اور اپجی۔ زکوٰۃ کے اندر پاکیزگی اور نشوونما دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے کہ زکوۃ نفس اور مال دونوں کو پاکیزگی بھی بخشی ہے اور اس سے مال میں برکت اور بڑھوتری بھی ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی بعض آیات سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً فرمایا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا (۱۰۳ توبہ) ان کے مالوں کا صدقہ قبول کرلو ان کو اس کے ذریعہ سے تم پاک کرو گے اور ان کا تزکیہ کرو گے۔ دوسری جگہ فرمایا ہے: وَمَآ اٰتَیْْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ وَمَاْ اٰتَیْْتُمْ مِنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ. (۳۹ روم) اور جو تم دیتے ہو سود تاکہ لوگوں کے مالوں میں بڑھوتری ہو تو یہ چیز اللہ کے ہاں نہیں بڑھتی اور جو تم دیتے ہو زکوٰۃ، اللہ کی رضا جوئی کے لئے تو یہی لوگ اپنے دئے ہوئے کو اللہ کے ہاں بڑھانے والے ہیں۔ زکوٰۃ کا لفظ ابتداء میں تو انفاق فی سبیل اللہ کی تمام قسموں کے لئے استعمال ہوتا رہا اور اس کا مفہوم وہی تھا جو لفظ صدقہ کا ہے لیکن بعد میں قرآن وحدیث کے استعمالات نے اس کو انفاق کی ان متعین مقداروں کے لئے خاص کر دیا جو اللہ اور رسول ﷺ نے ہرحال میں غربا وفقراء کے لئے واجب کر دی ہیں۔ رکوع: کے معنی آگے کی طرف جھک پڑنے، تواضع ظاہر کرنے اور فقروغربت سے پست ہوجانے کے ہیں۔ قرآن مجید میں اس سے مراد نماز ہوتی ہے اس لئے کہ یہ نماز کے اہم ترین ارکان میں سے ہے۔ اس کے ساتھ مَعَ الرَّاكِعِيۡنَ (رکوع کرنے والوں کے ساتھ) کی قید، نماز باجماعت کی اہمیت اور اس کی تاکید کو ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ نماز باجماعت کا مفہوم أَقِيمُوا الصَّلٰوةَ کے الفاظ کے اندر بھی موجود ہے لیکن مخاطب کے خاص حالات کی وجہ سے اس مضمون کو واضح الفاظ میں الگ بھی بیان کر دیا ہے۔ نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کے اس حکم کے مخاطب، جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے، یہود ہیں، اور اشارہ ان کے عوام وخواص سب کی طرف ہے جس میں عہد الٰہی کا اوپر حوالہ دیا گیا ہے اس کے بنیادی احکام یہی تھے اور یہود نے ان کو بالکل ترک کر رکھا تھا۔ قرآن مجید نے یہاں یہود کو ان احکام کے ازسرنو زندہ ہونے کی طرف توجہ دلائی اور اشارہ اس بات کی طرف بھی کر دیا کہ انہوں نے عہد الٰہی کے ان بنیادی احکام کو بالکل ختم کر رکھا ہے، لیکن صرف اشارہ کیا، اس بات کو صراحت کے ساتھ نہیں کہا تاکہ وہ بحث وتردید کے لئے نہ الجھ پڑیں۔ یہود کے متعلق یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ انہوں نے نماز اور زکوٰۃ وغیرہ کے احکام تقریباً ختم کر دئے تھے۔ جہاں تک نماز کا تعلق ہے اس کا حکم تو ان کے صحیفوں میں سرے سے موجود ہی نہیں ہے یہاں تک کہ ان کے ایک فرقے کا تو یہ خیال ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس چیز کا حکم ہی نہیں دیا تھا، یہ محض بعد والوں کی بدعت ہے۔ زکوٰۃ کا اگرچہ انہوں نے انکار تو نہیں کیا لیکن ان کے علما اور کاہنوں نے اس کا مصرف فقرا اور مساکین کے بجائے اپنے آپ کو قرار دے لیا۔ چنانچہ کتاب احبار، جس میں کاہنوں کے حقوق وفرائض اور نذر اور قربانیوں وغیرہ کا بیان ہے، فقرا اور مساکین کے ذکر سے بالکل خالی ہے۔ پیداوار کے عشر، پہلوٹھی کے فدیے اور ہر قسم کی نذریں اس میں کاہنوں کے لئے مخصوص کر دی گئی ہیں اور اس طرح زکوٰۃ کے اصلی حق دار فقرا اور غربا کے بجائے علما اور کاہن بن کے رہ گئے۔ قرآن مجید نے نماز اور زکوٰۃ دونوں معاملوں میں شریعت الہٰی کا حکم بھی واضح کیا اور یہود کی زیادتیوں پر نہایت واضح الفاظ میں ان کو ملامت بھی کی۔ نماز کے متعلق قرآن مجید نے یہ واضح کیا کہ سب سے پہلی چیز جو یہود پر فرض کی گئی وہ نماز ہی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو توحید کی تعلیم کے بعد سب سے پہلا حکم نماز کا ہی دیا گیا۔ چنانچہ ارشاد ہوا: اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ. (۱۴ طٰہٰ) بے شک میں ہی اللہ ہوں، نہیں ہے کوئی معبود مگر میں۔ میری ہی بندگی کر اور میری یاد کے لئے نماز قائم کر۔ دوسری جگہ فرمایا: وَاَوْحَیْْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَاَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّاجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ. (۸۷ یونس) اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ تم اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر مقرر کر لواور اپنے گھروں کو قبلہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ ان آیات سے صاف واضح ہے کہ یہود کی جماعتی شیرازہ بندی سب سے پہلے نماز باجماعت کے ذریعہ سے ہوئی تھی لیکن اس کی اہمیت بعد میں انہوں نے بالکل ختم کر دی۔ وَارْكَعُوۡا مَعَ الرَّاكِعِيۡنَ کے الفاظ کی روشنی میں استاذ امام رحمۃ اللہ علیہ نے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک اس حقیقت کی طرف کہ یہاں یہود کو رکوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیوں کہ انہوں نے رکوع کو بالکل ترک کر دیا تھا۔۱؂ (۱؂ استاذ امام رحمتہ اللہ کے نزدیک یہود اپنے اوپر سال میں صرف ایک مرتبہ سجدہ کرنا واجب سمجھتے تھے اور اس کے لیے بھی ان کے علما نے یہ اجازت دے رکھی تھی کہ اگر کوئی شخص کھڑے کھڑے کسی دیوار یا کھمبے پر اپنی پیشانی رکھ دے تو ادائے فرض کے لیے یہ بھی کافی ہے۔ معلوم نہیں مولانا ؒ کے اس بیان کا ماخذ کیا ہے لیکن تورات میں یہود کو بار بار جو گردن کش کہا گیا ہے اس کی وضاحت ان کے اس طرزِ عمل کی روشنی میں بہ خوبی ہو جاتی ہے۔) دوسرے نماز باجماعت کے اہتمام کی طرف، وہ اس طرح کہ لیڈروں کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ نمازوں میں غربا اور عوام کے ساتھ شریک ہوں اور ان کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہوں، کیوں کہ پہلی چیز جو نماز کو ڈھانے والی ہے وہ یہی ترک جماعت ہے۔ امراء عوام کے ساتھ مسجدوں کی حاضری کو کسر شان سمجھنے لگتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کی عزت کم ہوجاتی ہے اور مسجدوں کی حاضری صرف غربا کےساتھ مخصوص ہوجاتی ہے۔ نماز باجماعت کی اسی اہمیت کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہ السلام کو بھی جماعت کے اہتمام کی تاکید فرمائی۔ یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ. (۴۳ اٰل عمران) اے مریم اپنے رب کی فرمانبردار رہ اور سجدہ اور رکوع کر رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔
Top