Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم کو آل فرعون کے قبضہ سے چھڑایا۔ وہ تمہیں برے عذاب چکھاتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تماہرے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی
آل فرعون، یعنی قوم فرعون۔ آل سے مراد صرف کسی شخص کی اولاد نہیں ہوا کرتی بلکہ یہ لفظ آل و اولاد ، قوم وقبیلہ اور اتباع وانصار سب پر حاوی ہے۔ نابغہ ذبیانی کا شعر ہے: من آل میہ رایح اومغتدی عجل نذازاد وغیر مزود میہ کے قبیلہ کے لوگوں میں کوئی صبح روانہ ہوا کوئی شام، کوئی زاد راہ کےساتھ، کوئی بغیر زادراہ کے۔ سورہ مومن ۴۵ میں ہے، وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوْءُ الْعَذَابِ اور آل فرعون کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ وَلَقَدْ اَخَذْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ (۱۳۰) اور ہم نے آل فرعون کو قحط اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کر دیا۔ ان آیات میں جس عذاب کا ذکر ہے ظاہر ہے کہ وہ فرعون اور اس کی ساری قوم ہی پر آیا، نہ کہ صرف اس کی اولاد پر، اس کی اولاد کا تو کہیں ذکر بھی نہیں ہے۔ بلکہ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے وہ اس کا بے اولاد ہونا ثابت کرتے ہیں۔ تورات میں یہ ذکر ضرور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں دریا سے جس نے نکلوایا تھا وہ فرعون کی لڑکی تھی لیکن قرآن نے اس غلطی کی بھی تصحیح کر دی کہ یہ اس کی لڑکی نہیں بلکہ اس کی بیوی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ وَقَالَتِ امْرَاۃُ فِرْعَوْنَ قُرَّۃُ عَیْْنٍ لِّیْ وَلَکَ لَا تَقْتُلُوْہُ عَسٰی اَنْ یَّنفَعَنَا اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (۹ قصص) اور فرعون کی بیوی نے کہا، یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے،اس کو قتل نہ کرو، ممکن ہے ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں اور وہ اس بات کے انجام کا احساس نہیں رکھتے تھے۔ “سَوم”کے معنی کسی پر کوئی بوجھ یا بار ڈالنے کے ہیں، کہیں گے سامہٗ ظلما وسامہٗ خسفا اس کو ظلم کا یا ذلت کا مزہ چکھایا۔ يُذَبِّحُوۡنَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوۡنَ نِسَاءَكُمْ وہ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے۔ یہ اس عذاب ظلم و ذلت کی تفصیل ہے جس میں فرعونیوں کے ہاتھوں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے۔ اگرچہ مصر میں بنی اسرائیل پر طرح طرح کے ظلم توڑے جاتے تھے اور بے شمار قسم کی ذلتوں سے انہیں سابقہ تھا جن کی تفصیل ان کی تاریخ میں موجود ہے لیکن یہاں ذکر صرف دو ہی باتوں کا بطور نمونہ فرمایا ہے، ان نمونوں سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ بنی اسرائیل وہاں کس شکنجہ میں تھے۔ بیٹوں کے قتل کے اسباب اور اس کی نوعیت کی تفصیل تو کسی موزوں مقام پر آئے گی البتہ بلاغت کا ایک نکتہ ملحوظ رکھنا چاہئے۔ وہ یہ کہ لڑکوں کے ذبح کا جو ذکر کیا ہے تو بیٹوں کے لفظ سے کیا ہے تاکہ شفقت پدری کا جذبہ ابھرے اور لڑکیوں کے زندہ رکھنے کا ذکر کیا ہے تو ان کے لئے تمہاری عورتوں کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے کہ غیرت کو حرکت میں لانے کے لئے یہ تعبیر زیادہ موثر تھی۔ وَفِيۡ ذَٰلكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ (اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی) اس آزمائش کے کٹھن ہونے کی طرف یہاں اشارہ اس لئے فرمایا کہ اس نجات کی اہمیت کا انہیں کچھ اندازہ ہو سکے جو انہیں حاصل ہوئی کہ کیسا عظیم ابتلا تھا جس سے ان کے رب نے ان کو چھڑوایا، اگر وہ نہ چھڑاتا تو کوئی دوسری طاقت اس عذاب سے ان کو نہیں چھڑا سکتی تھی۔
Top