Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور یاد کرو جب کہ ہم نے دریا کو پھاڑ کر تمہیں پار کرایا، پس تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو غرق کردیا اور تم دیکھتے رہے
فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ: کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ہم نے تمہیں ساتھ لے کر دریا کو پھاڑتے ہوئے عبور کیا۔ مطلب یہ ہو گا کہ جس طرح کوئی کسی کو گود میں اٹھا کر دریا پار کرا دے اسی طرح ہم نے تمہیں پار کرایا۔ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ: یعنی اپنی نجات کے بعد فرعون اور اس کے غرق ہونے کا ماجرا تم نے ساحل پر کھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ یہاں تاریخ بنی اسرائیل کے جن واقعات کی طرف اشارات کئے جارہے ہیں ان کے متعلق دو باتیں ملحوظ رکھنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ تمام واقعات بنی اسرائیل کی تاریخ کے نہایت اہم اور مشہور واقعات ہیں جن سے ان کا بچہ بچہ واقف تھا اس وجہ سے ان کی تفصیل کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف اشارات کافی تھے۔ دوسری یہ کہ زمانہ نزول قرآن کے بنی اسرائیل ان واقعات کو اپنی تاریخ کے واقعات کی حیثیت سے نہ صرف مانتے تھے بلکہ ان پر فخر کرتے تھے اس بنا پر قرآن نے ان واقعات کو ان کے سامنے اس طرح پیش کیا ہے گویا یہ انہی کے ساتھ پیش آئے ہیں۔ یہ بلیغ اسلوب اتمام حجت کے نقطۂ نظر سے نہایت موثر اور مفید ہے۔
Top