Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور تم پر بدلیوں کا سایہ کیا اور تم پر من وسلوی اتارے، کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو بخشی ہیں، اور انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے
یہ ان انعامات کا بیان ہے جو بنی اسرائیل پر صحرائے سینا میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دھوپ اور فاقے کی مصیبت سے بچانے کے لئے کئے۔ “مَنّ”کے اصل معنی فضل واحسان کے ہیں لیکن یہاں اس سے مراد وہ خاص غذا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے صحرائے سینا میں خاص اپنے فضل سے مہیا فرمائی، جس کے لئے نہ انہیں ہل چلانے پڑے، نہ تخم ریزی اور آب پاشی کی زحمتیں اٹھانی پڑیں۔ اس کی تفصیل اس طرح بیان ہوئی ہے: “اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانپ لیا اور صبح کو خیمہ کے آس پاس اوس پڑی ہوئی تھی اور جب اوس جو پڑی تھی سوکھ گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیابان میں ایک چھوٹی چھوٹی گول چیز، ایسی چھوٹی جیسے پالے کے دانے ہوتے ہیں، زمین پر پڑی ہے۔ بنی اسرائیل اس کو دیکھ کر آپس میں کہنے لگے مَن؟ کیوں کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا ہے۔ تب موسٰیؑ نے ان سے کہا کہ یہ وہی روٹی ہے جو خداوند نے کھانے کو تم کو دی ہے۔۔۔۔۔۔ اور وہ ہر صبح اپنے اپنے کھانے کی مقدار کے مطابق جمع کر لیتے اور دھوپ تیز ہونے ہی وہ پگھل جاتا۔”(خروج باب ۱۶ آیات ۱۳-۲۱) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبنم کی طرح ایک چیز زمین پر ٹپکتی تھی اور پالے کے دانوں کی طرح وہ جم جاتی تھی۔ آفتاب کی تمازت بڑھنے سے پہلے پہلے اس کا جمع کر لینا ممکن ہوتا تھا۔ تمازت بڑھنے کے بعد یہ دانے پگھل جاتے تھے۔ چونکہ یہ نعمت، جیسا کہ عرض کیا گیا ہے، بغیر کوئی زحمت ومشقت اٹھائے حاصل ہوئی تھی اور ایک ایسے بے آب وگیاہ صحرا میں حاصل ہوئی تھی جہاں فراہمی غذا کے اسباب ووسائل منقود تھے اس وجہ سے اس کا نام“مَنّ”قرار پایا (یہ واضح رہے کہ عربی اور عبرانی دونوں قریب الماخذ زبانیں ہیں)۔ “مَنّ”کے وجہ تسمیہ سے متعلق یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے لیکن تورات کا مذکورہ بالا اقتباس یہ ظاہر کرتا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب اس عجیب وغریب چیز کو دیکھا تو ان کے اندر یہ سوال پیدا ہوا کہ“مَنۡ ھُوَ”یہ کیا ہے؟ ان کے اسی سوال کے جواب میں اس کا نام“مَن”پڑ گیا۔ ہمارے نزدیک یہ وجہ تسمیہ محض یہود کی بدمذاقی کی ایک ایجاد ہے۔ نہ لفظ اس کی تائید کرتا ہے، نہ عقل سلیم اس کو قبول کرتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس چیز کو جو روٹی سے تعبیر فرمایا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سچ مچ کی روٹی کی قسم کی کوئی چیز تھی بلکہ روٹی یہاں غذا کے مفہوم میں ہے۔ غذا کے مفہوم کی تعبیر کے لئے یہ لفظ قدیم صحیفوں میں بہت استعمال ہوا ہے۔ ہماری زبان میں بھی یہ لفظ اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ سَلویٰ:“مَن”کی طرح“سلویٰ”بھی عربی میں اہل کتاب کے واسطہ سے آیا ہے اور اہل عرب نے اس کو اپنے اشعار میں بھی استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ ان پرندوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے لئے بھیجے۔ یہ بٹیروں سے ملتے جلتے تھےاور بٹیروں ہی کی طرح ان کا شکار نہایت آسان تھا۔ خروج میں ان کی تفصیل اس طرح آئی ہے: “پھر وہ ایلیم سے روانہ ہوئے اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت ملک مصر سے نکلنے کے بعد دوسرے مہینے کی پندرھویں تاریخ کو سین کے بیابان میں، جو ایلیم اور سینا کے درمیان ہے پہنچی اور اس بیابان میں بنی اسرائیل کی ساری جماعت موسٰیؑ اور ہارونؑ پر بڑبڑانے لگی، اور بنی اسرائیل کہنے لگے کاش کہ ہم خداوند کے ہاتھ سے ملک مصر میں جب ہی ماردئیے جاتے جب ہم گوشت کی ہانڈیوں کے پاس بیٹھ کر دل بھر کر روٹی کھاتے تھے کیوں کہ تم تو ہم کو اس بیابان میں لے آئے ہو کہ سارے مجمع کو بھوکا مارو۔۔۔۔۔ اور خداوند نے موسیٰ سے کہا، میں نے بنی اسرائیل کا بڑبڑانا سن لیا ہے۔ سو تو ان سے کہہ دے کہ شام کو تم گوشت کھاؤ گے اور صبح کو تم روٹی سے سیر ہو گے اور تم جان لو گے کہ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ اور یوں ہوا کہ شام کو اتنی بٹیریں آئیں کہ ان کی خیمہ گاہ کو ڈھانپ لیا۔”(خروج باب ۱۶ آیات ۱-۱۳) كُلُوۡا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ: (کھاؤ ان چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو بخشی ہیں) اس طرح کے مواقع پر عام طور پر ہمارے مفسرین قلنا کا لفظ محذوف مانتے ہیں۔ یعنی ہم نے یہ چیزیں ان کو بخشیں اور کہا کہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جو ہم نے بخشی ہیں۔ ہمارے نزدیک اس طرح کے مواقع پر“کہا”کا لفظ محذوف کر دینے میں ایک خاص بلاغت ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت اپنی صورت و ہیئت یا بالفاظ دیگر اپنی زبان حال سے بھی یہ دعوت دیتی ہے کہ اس نعمت الہٰی سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے پروردگار کے شگرگزار رہو۔ یہ اشارات قرآن مجید میں کہیں کہیں کھول دئے گئے ہیں اور بعض جگہ، جیسا کہ یہاں ہے، مخفی چھوڑ دئے گئے ہیں جن کے اندر اس کائنات کی پھیلی ہوئی نعمتوں کی اشارات سمجھنے والی عقل ہوتی ہے وہ ان اشارات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہاں کلام کا سیاق وسباق اس امر کو واضح کر رہا ہے کہ بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کا حق نہیں پہچانا۔۔ وہ ان نعمتوں کو پاکر شکرگزار بننے کے بجائے ان کی ناقدری اور خدا کی نافرمانی کرتے رہے۔ یہ بات چوں کہ سیاق کلام سے واضح ہے اس وجہ سے لفظوں میں ظاہر نہیں کی گئی بلکہ اس کی جگہ یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ“انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے”۔ اس فقرہ سے بنی اسرائیل کا ان نعمتوں سے متعلق رویہ بھی واضح ہو گیا ہے اور یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ جو لوگ خدا کی کسی نعمت کی ناقدری کرتے ہیں وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ اپنا ہی بگاڑتے ہیں۔ یہ آخری بات اوپر کی باتوں کی طرح یہود کو براہ راست مخاطب کر کے کہنے کے بجائے ان سے منہ پھیر کر غائب کے صیغہ سے کہی گئی ہے جس سے ان کی طرف سے متکلم کی بیزاری کا اظہار ہو رہا ہے۔
Top