Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 102
لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَا١ۚ وَ هُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ
لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہ سنیں گے حَسِيْسَهَا : اس کی آہٹ وَهُمْ : اور وہ فِيْ : میں مَا اشْتَهَتْ : جو چاہیں گے اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل خٰلِدُوْنَ : وہ ہمیشہ رہیں گے
وہ اس کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے۔ اور وہ اپنے من بھاتے عیش میں ہمیشہ رہیں گے
ایک غلط خیال کی تردید یعنی وہ اس جہنم سے اتنے دور رکھے جائیں گے کہ ان کو اس کی آہٹ بھی سنائی نہیں دے گی۔ اس آیت سے ان لوگوں کے خیال کی نہایت واضح الفاظ میں تردید ہو رہی ہے جو سورة مریم کی آیت 61 و ان منکو الا واردھا کے خطاب کو صحیح طور پر معین نہ کرنے کے سبب سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ اعلیاذ باللہ ایک مرتبہ تمام اہل ایمان کو بھی جہنم سے گزرنا پڑے گا۔ ہم نے سورة مریم کی آیت مذکورہ کے خطاب کو متعین کردیا ہے اور آیت زیر بحث کی روشنی میں مفسرین کے اس عام خیال کی تردید کر کے دونوں آیتوں کی باہمی موافقفت واضح کردی ہے۔ اس پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ جنت کے اندر تنوع کی آزادی وھم فی ما اشتھت انفسھم خلدون عیش، جنت ہی کا عیش سہی، اگر انسان کو اس کے اندر اپنے حسب منشا تغیر و تبدل کی آزادی حاصل نہ ہو تو اس کی یکسانی اس کو افسردہ کر دے گی اور وہ اس سے اکتا کر جی بہلانے کے لئے کسی دوسرے ماحول کا طالب ہوگا۔ انسان ایک ذی ارادہ و اختیار ہستی ہے اس وجہ سے بڑے سے بڑے عیش کو بھی وہ اپنی ہی شرائط پر پسند کرتا ہے۔ اس کی فطرت کے اس تقاضے کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے باایمان بندوں کے لئے جنت بھی ایسی بنائی ہے جس میں وہ اپنی پسند کے مطابق جس طرح کا تنوع چاہیں گے پیدا کرلیں گے۔ ان کی کسی خواہش میں کوئی ادنیٰ رکاوٹ بھی حائل نہیں کی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ عیش دوام اور اس کے اندر حسب منشا تنوع اور رنگا رنگی پیدا کرنے کی یہ آزادی اس دنیا میں ہفت اقلیم کے کسی شاہنشاہ کو بھی نہ حاصل ہوئی، نہ حاصل ہو سکتی۔ اسی حقیقت کو دوسرے مقام میں یوں واضح فرمایا ہے کہ لایبغون عنھ حولاً اہل جنت اپنی جنت سے ٹلنے کا نام بھی نہیں لیں گے۔
Top