Tadabbur-e-Quran - Al-Anbiyaa : 3
لَاهِیَةً قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّجْوَى١ۖۗ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ هَلْ هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۚ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَ اَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ
لَاهِيَةً : غفلت میں ہیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَسَرُّوا : اور چپکے چپکے بات کی النَّجْوَي : سرگوشی الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا (ظالم) هَلْ : کیا ھٰذَآ : یہ اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تم ہی جیسا اَفَتَاْتُوْنَ : کیا پس تم آؤگے السِّحْرَ : جادو وَاَنْتُمْ : اور (جبکہ) تم تُبْصِرُوْنَ : دیکھتے ہو
ان کے دل غفلت میں مدہوش ہیں اور ان ظالموں نے آپس میں یہ سرگوشی کی کہ یہ تو بس تمہارے ہی مانند ایک بشر ہیں تو کیا تم آنکھوں دیکھتے جادو میں پھنسو گے !
قریش کے لیڈروں کی سخن سازیاں لاھیۃ قلوبھم دوسرا ملا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل کا اصلی کام تفکر و تذکر ہے لیکن ان کا حال یہ ہے کہ ان کے دل اپنی دلچسپیوں میں ایسے کھوئے ہیں کہ سنجیدہ سے سنجیدہ بات اور بڑی سے بڑی حقیقت کو بھی یہ مذاق میں اڑا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قریش کے لیڈروں اور ان کے دانشوروں کی وہ باتیں نقل ہو رہی ہیں جو وہ اپنی مجالس میں قرآن اور نبی ﷺ کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لئے لوگوں کے اندر پھیلاتے تھے۔ ان کو یہ اندازہ اچھی طرح ہوگیا تھا کہ قرآن کی دعوت دلوں میں گھر کر رہی ہے اور صاف ذہن رکھنے والے لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اس اثر کو مٹانے کے لئے انہوں نے لوگوں کے اندر یہ وسوسہ اندازی شروع کی کہ یہ نہ سمجھو کہ ان کے کلام میں یہ زور و اثر اس چیز کا نتیجہ ہے کہ یہ کوئی فرستادے ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ یہ بھی تمہارے ہی جیسے انسان ہیں، اگر خدا کو کوئی رسول ہی بھیجنا ہوتا تو وہ کسی فرشتے یا کسی اور مخلوق کو اپنا رسول بناتا نہ کہ ہمارے ہی جیسے ایک انسان کو اور یہ جوان کے کلام میں زور و تاثیر اور فصاحت و بلاغت محسوس کرتے ہو یہ بھی محض اس شخص کی جادوبیانی کا کرشمہ ہے، جس طرح ہمارے دوسرے اشعر اور خطیب اپنی جادو بیانی سے لوگوں پر اثر ڈالتے ہیں اس طرح یہ شخص بھی اپنی جادو بیانی سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو تمہاری یہ بڑی سادہ لوحی ہوگی اگر تم جانتے بوجھتے اس شخص کے جادو میں پھنس گئے ! یہ اشغلے چونکہ لیڈر لوگ خاص اپنی مجالس میں ایجاد کرتے تھے اور وہیں سے القاء ہو کر یہ لوگوں کے اندر پھیلیت تھے، اس وجہ سے ان کو نجوی سے تعبیر فرمایا ہے اور الذین ظلموا کے الفاظ سے یہ ظاہر فرما دیا کہ یہ وسوسہ اندازیاں کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود اپنے اوپر بھی ظلم کیا کہ اپنے دل و دماغ معطل کر لئے اور دوسروں کے اوپر بھی ظلم کر رہے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ سحر سے مراد اور قرآن کو سحر کہنے کی وجہ افتالون السحر میں سحر سے مراد وہ کلام ہے جو نبی ﷺ لوگوں کو سناتے تھے۔ اہل عرب اس کلام کو جس میں غیر معمولی تاثیر و تسخیر ہو سحر سے تعبیر کرتے تھے۔ زور و اثر رکھنے والے کلام کے لئے یہ تعبیر ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ جہاں تک قرآن مجید اور آنحضرت صلعم کے ارشادات کی فصاحت و بلاغت اور سطوت و جلالت کا تعلق ہے وہ ایسی چیز تھی کہ اس کا انکار مخالفین بھی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے اس وجہ سے وہ مجبوراً اس کا اعتراف کرتے۔ البتہ وہ اپنے عوام کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ یہ زور و تاثیر اس چیز کا نتیجہ نہیں ہے کہ یہ کوئی آسمانی کلام ہے یا اس کا پیش کرنے والا خدا کا کوئی رسول ہے بلکہ یہ تمام تر الفاظ کی جادوگری اور زور خطابت کی ساحری ہے تو جانتے بوجھتے، دیکھتے سنتے اس شخص کے جادو میں نہ پھنسو۔ وانتم تبصرون کا ٹکڑا لوگوں کے اندر احساس برتری ابھارنے کے لئے ہے کہ تم کوئی بھولے بھالے اور سادہ لوح لوگ نہیں بلکہ سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ ہو اس وجہ سے تمہیں اس فریب میں نہیں آنا چاہئے۔
Top