Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 17
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَادُوْا وَ الصّٰبِئِیْنَ وَ النَّصٰرٰى وَ الْمَجُوْسَ وَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا١ۖۗ اِنَّ اللّٰهَ یَفْصِلُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ شَهِیْدٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَالَّذِيْنَ : اور جو هَادُوْا : یہودی ہوئے وَ : اور الصّٰبِئِيْنَ : صابی (ستارہ پرست) وَالنَّصٰرٰي : اور نصاریٰ (مسیحی) وَالْمَجُوْسَ : اور آتش پرست وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا : اور وہ جنہوں نے شرک کیا (مشرک) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَفْصِلُ : فیصلہ کردے گا بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے شَهِيْدٌ : مطلع
جو لوگ ایمان لائے جنہوں نے یہودیت اختیار کی اور صائبین، نصاریٰ مجوس اور جنہوں نے شرک کیا، اللہ قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز سے واقف ہے
مشرکین اور ان کے اتحادیوں کو تنبیہ اس آیت میں جن گروہوں کا ذکر ہے ان میں سے مجوس اور مشرکین کے سوا ہر گروہ کا ذکر سورة بقرہ آیت 62 میں بھی گزر چکا ہے۔ وہاں ہم نے یہود، نصاریٰ اور صائبین سب پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ملاحظہ ہوں صفحات 187-182 جلد اول، مجسوس اصلاً تو دین زرد شت کے پیرو تھے اور دین زردشت کی بنیاد، جیسا کہ ہم سورة کہف میں بیان کرچکے ہیں، خالص توحید پر تھی لیکن جس طرح امتداد زمانہ سے ہر دین کا حلیہ بگڑا اسی طرح اس دین کے پیرو بھی اپنے اصل دین کو مسخ کر کے آتش پرستی اور دوسری مشرکانہ بدعتوں میں مبتلا ہوگئے۔ اوپر کی آیات میں مومنین اور مشرکین کے درمیان جس مناظرہ و مجادلہ کا ذکر ہوا ہے یہ آیت بھی اسی سے متعلق ہے۔ اس مناظرہ کے اصلی فریق تو مسلمان اور مشرکین قریش ہی تھے لیکن اس دور میں جیسا کہ پیچھے کی سورتوں میں تفصیلی گزر چکی ہے، دوسرے مذاہب کے پیرو بھی، جو عرب میں موجود تھے، اس میں فریق بن گئے اور چونکہ اسلام کی دعوت کی زد ان سب پر پڑتی تھی اس وجہ سے ان کی ہمدردیاں مشرکین کے ساتھ تھیں۔ خاص طور پر یہود و نصاریٰ تو کھلم کھلا ہر محاذ پر ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ قرآن نے ان سب کو نام لے کر آگاہ کیا کہ آج خدا اور اس کی آیات کے باب میں جو محاذ گرم ہے وہ یہیں نہیں ختم ہوجائے گا بلکہ یہ قضیہ قیامت کے دن خدا کی عدالت میں بھی پیش ہونے والا ہے جس میں ایک طرف اہل ایمان ہوں گے، دوسری طرف یہ مشرکین اور ان کے ہمنوا … یہود، صائبین، نصاریٰ اور مجوس … اس دن خدا فیصلہ فرمائے گا کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر، ظاہرے کہ یہاں فیصلہ سے مقصود اس کے نتیجہ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اس دن ہر ایک کے سامنے اس کی اس سعی و سرگرمی کے نتائج آجائیں گے جس میں وہ آج مصروف ہے۔ اہل ایمان اپنی جانبازیوں کا صلہ پائیں گے اور کفار و مشرکین اور ان کے اتحادی اپنی سرگرمیوں کے نتائج بھگتیں گے۔ ان اللہ علی کل شیء شھید اہل ایمان کے لئے پیام تسلی اور اہل شرک اور ان کے حامیوں کے لئے تہدید وعید ہے کہ خدا ہر چیز کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اپنے باایمان بندوں کی جانبازیوں اور سرفروشیوں کو بھی دیکھ رہا ہے اور مخالفین کی سازشوں اور شرارتوں کو بھی۔ اس وجہ سے وہ ہر ایک کے ساتھ ٹھیک ٹھیک وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ٹھہرے گا۔ جو اہل ایمان کے ساتھ نہیں وہ اہل کفر ہیں اس آیت میں آپ نے غور کیا ہوگا کہ سب سے پہلے اہل ایمان کا ذکر ہوا ہے اور آخر میں مشرکین کا اور بیچ میں دور سے مختلف فرقوں کا اس کی وجہ، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، یہ ہے کہ اصل فریق کی حیثیت اس مباحثہ و مناظرہ میں انہی دو کو حاصل تھی، باقی گروہوں کی حیثیت ضمنی تھی۔ چناچہ آگے آیت 19 میں تصریح بھی ہے کہ اصل فریق دو ہیں۔ اہل ایمان اور اہل کفر و شرک۔ جو اہل ایمان کے ساتھ نہیں ہے وہ اہل کفر میں سے ہے، خواہ وہ کسی نام سے موسوم اور کسی دین کی پیروی کا مدعی ہو۔ اسم اور فعل کے مواقع استعمال میں ایک نازک فرق آیت میں مختلف گروہوں کے ذکر کے لئے جو اسلوب بیان اختیار فرمایا گیا ہے وہ بھی قابل توجہ ہے۔ مسلمانوں اور یہود و مشرکین کا ذکر تو فعل کی شکل میں ہوا ہے اور صائبین، نصاریٰ اور مجوس کا اسم کی شکل میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملاً اس میدان میں ایک طرف مسلمان تھے، دوسری طرف مشرکین اور یہود، یہود، مشرکین کی حمایت اور اسلام کی مخالفت میں اپنے حسد وعناد کے باعث بہت سگرم تھے۔ باقی فرقوں کی ہمدردیاں اگرچہ تھیں تو مشرکین ہی کے ساتھ لیکن وہ کچھ زیداہ سرگرم نہ تھے۔ اس وجہ سے معرکہ کے اصلی حریفوں کو تو فعل کے ساتھ ذکر کیا ہے اور دورسوں کا ذکر اسم کے ساتھ۔ زبان کا ذوق رکھنے والے جانتے ہیں کہ فعل کے اندر ایک قسم کی سرگرمی کا مفہوم پایا جاتا ہے جب کہ اسم بالعموم صرف علامت امتیاز کا فائدہ دیتا یہ۔
Top