Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر وہ اپنے ملا کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت قدیم کا طواف کریں
حج کے آخری مراسم تغث کے معنی میل کچیل کے ہیں تقضی تغثہ ای ازالہ اس نے اپنا میل کچیل دور کیا ہے۔ یہ قربانی سے فارغ ہونے کے بعد حج کے آخری مراسم کی ادائیگی کی طرف اشارہ ہے احرام کی پابندیوں اور مناسک کی سرگرمیوں کی وجہ سے بال وغیرہ بھی بڑھ جاتے ہیں اور جسم کا میل کچیل بھی زیادہ ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہی بات پسند ہے کہ ان ایام میں بندے پر یہی خستہ حال و پراگندہ بال کی حالت طاری رہے، لیکن حج کے بعد حجامت بنوائے، نہانے دھوئے، کپڑے بدلے اور اگر کوئی قربانی وغیرہ نذر مانی ہے تو وہ پوری کرے اور بیت اللہ کا آخری طواف کر کے حج سے فارغ ہوجائے۔ بیت حتیق بیت اللہ کو یہاں بیت حتیق سے تعبیر فرمایا ہے۔ عتیق کے منی اصل اور قدیم کے ہیں۔ بیت اللہ کو عتیق کہنے کی وجہ، جیسا کہ ہم بقرہ 125 کے تحت واضح کرچکے ہیں، یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا تعمیر کردہ خدا کا اصل اور قدیم گھر یہی ہے نہ کہ بیت المقدس جیسا کہ یہود دعویٰ کرتے ہیں۔ بیت المقدس اول تو حضرت ابراہیم ؑ کے بہت بعد، حضرت سلیمان ؑ کے ہاتھوں تعمیر ہوا ہے، پھر اس کی تعمیر بھی اسی طرح ہوئی کہ اس کی اصل قربان گاہ کا رخ بیت اللہ ہی کی طرف تھا، اس لئے کہ تمام ذریت ابراہیم کا اصل قبلہ بیت اللہ ہی تھا۔ اگرچہ یہود نے ان تمام چیزوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن اصل حقیقت کے شواہد تورات میں آج بھی موجود ہیں اور بقرہ کی تفسیر میں ہم ان کی وضاحت کرچکے ہیں۔
Top