Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 28
لِّیَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَ یَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِیْمَةِ الْاَنْعَامِ١ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ٘
لِّيَشْهَدُوْا : تاکہ وہ آموجود ہوں مَنَافِعَ : فائدوں کی جگہ لَهُمْ : اپنے وَيَذْكُرُوا : وہ یاد کریں (لیں) اسْمَ اللّٰهِ : اللہ کا نام فِيْٓ : میں اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ : جانے پہچانے (مقررہ) دن عَلٰي : پر مَا : جو رَزَقَهُمْ : ہم نے انہیں دیا مِّنْ : سے بَهِيْمَةِ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِنْهَا : اس سے وَاَطْعِمُوا : اور کھلاؤ الْبَآئِسَ : بدحال الْفَقِيْرَ : محتاج
تاکہ لوگ اپنی منفعت کی جگہوں پر بھی پہنچیں اور چند خاص دنوں میں، ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ پس اس میں سے کھائو اور فاقہ کش فقیروں کو کھلائو
حج کی دنیوی برکات یعشھدوا منافع لھم بقرہ کی تفسیر میں ہم وضاحت سے بیان کرچکے ہیں کہ حج کے مہینے اہل عرب کی تجارتی سرگرمیوں کے لئے بھی موسم بہار کا حکم رکھتے تھے۔ اسی زمانے میں باہر سے اہل مکہ کی ضرورت کی تمام چیزیں مکہ کے بازاروں میں پہنچتی تھیں اور مکہ کا مال باہر کی منڈیوں کے لئے نکلتا تھا۔ اگر حج کے اصل مقصود کے ساتھ ساتھ اس قسم کے جائز دنیوی منافع حاصل کئے جائیں تو یہ چیز اس دینقیم کے مزاج کے منافی نہیں ہے جس کی تعلیم حضرت ابراہیم ؑ نے دی ہے بلکہ یہ اس امر کی شہادت ہے کہ یہ دین فطرت رہبانیت کے ہر شائبہ سے پاک ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی اس عبادت میں بھی دین و دنیا کی بہم آمیزی کا اعتدال قائم رکھا ہے جس میں بظاہر سب سے زیادہ ترک دنیا کی نمود ہے۔ بس اصل چیز صحیح توازن کو قائم رکھنا ہے کہ حج صرف تجارتی یا سیاسی سفر بن کے نہ رہ جائے۔ ویذکرما اسم اللہ فی ایام معلومت علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام بھیمۃ الانعام کی تحقیق مائندہ آیت 1 ے تحت گزر چکی ہے۔ ایام معلومت سے مراد ایام معلومت سے مراد قربانی کے معین ایام ہیں۔ ہم دوسرے مقام میں دنی کی اس حکمت کی طرف اشارہ کرچکے ہیں کہ جس طرح اس دنیا کے کاموں میں اوقات، فصلوں اور موسموں کا اعتبار ہے، اگر اس کو قائم نہ رکھا جائے تو ساری جدوجہد اکارت ہو کے رہ جاتی ہے اسی طرح عبادات میں بھی مقام، اوقات ایام اور مہینوں کا اعتبار ہے۔ اگر ان کا حتی الامکان اہتمام نہ رکھا جائے تو عبادت اپنی اصلی برکت سے محروم رہ جاتی ہے۔ قربانی کے جو دن ہیں یہ اللہ و رسول کے مقرر کئے ہوئے ہیں اور یہ حضرت ابراہیم کی قربانی کی یاد گار ہیں۔ ان میں امت کی سہولت کو پیش نظر رکھ کر اللہ و رسول نے ایک حد خاص تک وسعت بھی رکھی ہے۔ اس وسعت سے فائدہ اٹھانا تقویٰ کے منافی نہیں ہے لیکن ان ایام کا اعتبار دین میں ضروری ہے اور یہ چیز اس کائنات کی فطرت کے بالکل طمباق ہے۔ چوپایوں کی جانوں پر اللہ کے نام کا قفل ویذکروا اسم اللہ اس آیت میں بھی اور آگے کی آیات میں بھی ذبح اور سحر کو ذکر اسم اللہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس اہتمام خاص کی وجہ یہ ہے کہ جاہلیت میں مشرکین کی تمام قربانیاں ان کے اصنام کے لئے ہوتی تھیں۔ اس فتنہ کے کلی سدباب کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام چوپایوں کی جانوں پر اپنے نام کا قفل لگادیا جو صرف اسی کے نام کی کنجی سے کھولا جاسکتا ہے۔ اس کے بغیر کسی چوپایہ کی جان لینا دین میں حرام ٹھہرا علی مارزقھم من بھیمۃ الانام اس بات کی دلیل ہے کہ کیوں چوپایوں کو خدا ہی کے نام پر ذبح کرنا ضروری ہے ؟ یہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ خدا ہی کے عطا کردہ ہیں اس وجہ سے کسی غیر اللہ کے نام پر ان کو ذبح کرنا خدا کی بھی ناشکری ہے اور جانوروں کی بھی تحقیر ہے۔ اس اسلوب میں اللہ تعالیٰ کے شکر کی ترغیب و تشویق بھی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کو چوپائے اپنے فضل و رحمت سے عطا فرمائے ہیں ان کا حق یہ ہے کہ بندے اس نعمت کے شکر کے طور پر ان کا نذرانہ اپنے رب کے حضور میں پیش کریں۔ مشرکین کے بعض توصرات فکلا منھا واطعموا بسآئس الفقیر فرمایا کہ یہ قربانی جو تمہیں پیش کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے وہ اس لئے نہیں کہ مذاکوان قربانیوں سے کوئی نفع پہنچتا ہے۔ خدا کو ان قربانیوں کا گوشت یا خون کچھ بھی نہیں پہنچتا۔ تمہاری پیش کی ہوئی یہ چیز تمہی کو لوٹا دی جاتی ہے تم خود اس کو کھائو اور بھوکوں اور محتاجوں کو کھلائو قربانی کی مثال بالکل یوں ہے کہ کوئی اپنے سر کے تاج کو اصل بادشاہ کے قدموں پر رکھے اور بادشاہ اس تاج کو اپنے قدموں سے عزت دے کر پھر اس کے سر پر پہناوے …یہاں یہ امر محلوظ رہے کہ مشرک قومیں بلا استثنا یہ تصور رکھتی ہیں کہ ان کے معبود ان کی پیش کردہ قربانیوں سے بہرہ اندوز و لذت یاب ہوتے ہیں۔ مشرکین تو درکنار یہود تک کے یہاں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ خداوند بعض قربانیوں کی خوشبو سے بہت محظوظ ہوتا ہے۔ قرآن نے اس آیت میں بھی اور آگے کی آیات میں بھی ان تصورات کا خاتمہ کردیا ہے۔
Top