Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 32
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعظیم کرے گا شَعَآئِرَ اللّٰهِ : شعائر اللہ فَاِنَّهَا : تو بیشک یہ مِنْ : سے تَقْوَي : پرہیزگاری الْقُلُوْبِ : جمع قلب (دل)
ان امور کا اہتمام رکھو ! اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یاد رکھے کہ یہ چزدل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے
شعائر کی تعظیم کے لئے اصل شرط یہ ذلک بھی اسی طرح کا ہے جیسا کہ اوپر آیت 30 میں گزرا یعنی اوپر جو باتیں بتائی گئیں ان کو اچھی طرح سن لو اور ان کو گرہ کرو اور مزید برآں یہ اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ نے جو شعائر مقرر فرمائے ہیں ان کی تعظیم کا حق محض ظاہر داری سے ادا نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے دل کا تقویٰ مطلوب ہے۔ شعائر، جیسا کہ ہم بقرہ 158 ان الضفا والمردۃ من شعآئر اللہ کے تحت واضح کرچکے ہیں کسی عظیم حقیقت کے نشان اور مظہر کے طور پر مقرر ہوئے ہیں۔ ان سے اصل مقصود انہی حقائق کی تذکیر و تذکر ہے جو ان کے اندر مضمر ہیں اگر ان حقائق کا اہتمام باقی نہ رہ جائے تو محض ظاہری رسم داری سے شعائر کی تعظیم کا حق ادا نہیں ہوتا۔ ان کی صحیح تعظیم کا حق اسی وقت ادا ہوتا ہے جب وہ اثر ان سے اخذ کیا جائے جس کے پیدا کرنے کے لئے وہ مقرر ہوئے ہیں، آگے قربانی سے متعلق، جو ایک عظیم شعیرہ ہے، اسی حقیقت کو یوں واضح فرمایا ہے۔ لن ینال اللہ بعومھا ولادمآوھا ولکن ینالہ التقری منکم 37 اللہ کو تمہاری ان قربانیوں کا نہ گوشت پہنچے گا اور نہ ان کا خون بلکہ صرف تمہارا تقویٰ پہنچے گا۔ قربانی کے متعلق معلوم ہے کہ یہ حضرت ابراہیم کی قربانی کی یاد گار ہے۔ انہوں نے اپنے محبوب فرزند … حضرت اسماعیل … کی قربانی کر کے اسلام کی اس حقیقت کا اظہار فرمایا کہ مسلم کو ہر وقت اپنی عزیز سے عزیز شے اپنے رب کی خاطرقربان کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اگر قربانی کی یہ حقیقت مستحضر نہ رہے اور آدمی ایک جانور کی گردن پر چھری چلا دے تو گو فی الظاہر اس نے قربانی کردی لیکن فی الحقیقت وہ اس عظیم شعیرہ کی روح سے بیخبر رہا اور آنحالیکہ خدا تک رسائی حاصل کرنے والی چیز وہ روح ہی ہے نہ کہ اس کی قربانی کا گوشت یا خون
Top