Tadabbur-e-Quran - Al-Hajj : 31
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَیْرَ مُشْرِكِیْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّیْرُ اَوْ تَهْوِیْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ مَكَانٍ سَحِیْقٍ
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ : اللہ کے لیے یک رخ ہوکر غَيْرَ : نہ مُشْرِكِيْنَ : شریک کرنے والے بِهٖ : اس کے ساتھ وَمَنْ : اور جو يُّشْرِكْ : شریک کرے گا بِاللّٰهِ : اللہ کا فَكَاَنَّمَا : تو گویا خَرَّ : وہ گرا مِنَ السَّمَآءِ : آسمان سے فَتَخْطَفُهُ : پس اسے اچک لے جاتے ہیں الطَّيْرُ : پرندے اَوْ : یا تَهْوِيْ : پھینک دیتی ہے بِهِ : اس کو الرِّيْحُ : ہوا فِيْ : میں مَكَانٍ : کسی جگہ سَحِيْقٍ : دور دراز
اللہ ہی کی طرف یکسو رہو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور جو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ وہ آسمان سے گرے اور چڑیاں اس کو اچک لیں یا ہوا اس کو کسی دور دراز جگہ میں لے جا پھینکے
یعنی اللہ تعالیٰ کے تمام شعائر کی تعظیم اور تمام مناسک کی ادائیگی اس طرح مطلوب ہے کہ ہر کام جو اس کی طرف یکسو ہو کر اور شرک کے ہر شائبہ سے بالکل پاک رہتے ہوئے کیا جائے۔ اگر کسی کام میں شرک کی کوئی آمیزشہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بالکل باطل ہے۔ مشرک کی تمثیل ومن یشرک باللہ الآیۃ یہ مشرک کی تمثیل بیان ہوئی ہے کہ آدمی شرک کا ارتکاب کر کے اپنے اصل مرکز سے کٹ جاتا ہے اور جب وہ اصل مرک ز سے کٹ گیا تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس شیطان کے ہتھے چڑھ جائے وہ ایک بےلنگر کا جہاز ہے جو ہر چٹان سے ٹکرا سکتا اور ایک کٹا ہوا پتنگ ہے جس کو ہوا جہاں چاہے اڑا لے جاسکتی ہے۔ توحید سے انسان کو جس درجے کی سرفرازی حاصل ہوتی ہے اس سے محروم ہوتے ہی وہ اسی درجے کی پستی میں گر جاتا ہے۔ فرمایا کہ جو اللہ کا شریک بناتا ہے اس کی مثال یوں ہے کہ وہ آسمان سے گرا اور عقابوں نے اس کو اچک لاک یا ہوا نے اس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیا ! یہ وقتی مفادات نہیں ہیں بلکہ ان کی اخروی بروکتیں ہیں۔ جو لوگ ان اخروی برکتوں کی خاطر ہر حال میں ان کا احترام قائم رکھیں گے وہ یاد رکھیں کہ اللہ کے نزدیک یہ چیز ان کے لئے بہت بڑے خیر کا باعث ہوگی۔ مشرکین کے من گھڑت فتوئوں کی تردید واجلت لکم الانعام الا مایتلی علیکم فاجتنبوا الرجس من الادثان واجتنبوا قول الزور اوپر والا ٹکڑا، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، بطور تنبیہ کے ہے۔ اب علی مارزقھم من بھیمۃ الانعام کے تعلق سے یہ واضح فرمایا جا را ہے کہ مشرکین نے محض اپنے مشرکانہ توہمات کی بنا پر مختلف چوپایوں کے بارے میں یہ فتوے جو جاری کر رکھے ہیں کہ فلاں چوپایہ حلال ہے، فلاں حرام ہے، فلاں مردوں کے لئے جائز ہے اور فلاں عورتوں کے لئے ناجائز ہے، فلاں قسم کے چوپایہ پر سواری کرنا جائز ہے اور فلا قسم کے چوپایہ پر جائز نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ یہ ساری باتیں محض منگھڑت ہیں۔ ملت ابراہیم میں ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ملت ابراہیم میں حرام صرف وہی چوپائے ہیں جو قرآن میں پڑھ کر سنائے جا رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوا کہ شرک کا ارتکاب کر کے آدمی خدا کا کچھ نہیں بگاڑتا بلکہ خود اپنے ہی کو اس سرفرازی اور اس امن و حفاظت سے محروم کرلیتا ہے جو توحید کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بخشی ہے۔ پھر وہ شیطان کے ہر فتنہ کا ہدف اور اس کے بچھائے ہوئے ہر جال کا شکار ہے۔
Top