Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 68
اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَآءَهُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَآءَهُمُ الْاَوَّلِیْنَ٘
اَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا : کیا پس انہوں نے غور نہیں کیا الْقَوْلَ : کلام اَمْ : یا جَآءَهُمْ : ان کے پاس آیا مَّا : جو لَمْ يَاْتِ : نہیں آیا اٰبَآءَهُمُ : ان کے باپ دادا الْاَوَّلِيْنَ : پہلے
کیا ان لوگوں نے کلام پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس وہ چیز آئی جو ان کے اگلے آباء و اجداد کے پاس نہیں آئی !
آگے کا مضمون …… آیات 92-68 آگے چند آیات میں کفار کے لا ابالی پن پر زجر و توبیخ ہے۔ پھر نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ تم ان لوگوں کی ضد اور مکابرت سے مایوس نہ ہو۔ تم صراط مستقیم پر ہو اور یہ لوگ صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہ اپنا انجام خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ اگر ہم ان لوگوں کو بطور تنبیہ کسی مصیبت میں بھی مبتلا کریں جب بھی یہ سنبھلنے والے نہیں ہیں بلکہ ان سے چھوٹتے ہی پھر اپنی سرمستیوں میں کھو جائیں گے جن میں کھوئے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد آفاق وانفس کی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ لوگ لا ابالی پن چھوڑ کر کچھ سونچنے سمجھنے کی طرف مائلی ہوں لیکن اس کے جواب میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ وہ سب پچھلوں کے فسانے ہیں۔ اس کے بعد چندآیات میں لوگوں کے تضاد فکر کی طرف توجہ دلائی ہے اور ان سے سوال کیا ہے کہ ایک طرف تو تم صحیح باتوں کا اقرار و اعلان کرتے ہو لیکن پھر تمہاری عقل کہاں گم ہوجاتی ہے کہ ان کے بالکل برعکس باتیں مان کر ضلالت کی وادی میں بھٹک جاتے ہ ! … اس روشنی میں آیات کی تلاوت کیجیے۔ استفہامیہ اسلوب ببقصد زجر و ملامت یہ اور آگے جو باتیں استفہامیہ اسلوب میں آئی ہیں سب بطور اظہار حسرت اور بقصد اجر و ملامت ہیں۔ قول سے مراد یہاں قرآن ہے جس سے اعراض کا ذکر اوپر والی آیت میں ہوچکا ہے۔ فرمایا کہ آخر یہ لوگ اس قرآن سے اس درجہ کیوں بدک رہے ہیں ! کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا یا ان کا گمان یہ ہے کہ یہ ان کے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے۔ چونکہ یہاں کلام زجر اور حسرت کے انداز میں عیہ اس وجہ سے بات مجمل چھوڑ دی گئی ہے۔ دوسرے مقام میں یہ تصریح ہے کہ ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہوئے ہیں اس وجہ سے قرآن کی باتیں ان کے دلوں میں نہیں اترتیں۔ قرآن کو باپ دادا کی روایات کے خلاف سمجھ کر اس سے بدکنا بھی نری جہلات ہے۔ باپ دادا کا طریقہ بجائے خود اپنی صحت و صدانقت کی دلیل نہیں ہے بلکہ اس کا عقل و فطرت کی کسوٹی پر پورا اترنا بھی ضروری ہے علاوہ ازیں آخر یہ لوگ اپنی ناک سے آگے کیوں نہیں دیکھتے ! ان کیا صل جد اعلیٰ تو حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ہیں وہ تو اسی دین کے حامل اور داعی تھے۔ یہ لوگ اپنے ان اجداد کرام کی پیروی کیوں نہیں کرتے، اپنے انہی آباء کی لکیر کیوں پیٹے جا رہے ہیں جو دین سے بالکل بیخبر تھے !
Top