Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 12
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کی بابت نیک گمان کرتے اور کہہ دیتے کہ یہ تو ایک کھلا ہوا بہتان ہے !
اسلامی معاشرہ کا اخلاقی اصول اسلامی معاشرے میں ہر مسلمان مرد و عورت کا یہ حق ہے کہ دوسرے افراد معاشرہ ان کے بارے میں حسنظن رکھیں اور اس وقت تک ان کے اس حق کا احترام کریں جب تک دلیل سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ اس حسن ظن کے حق دار باقی نہیں رہے۔ اس حق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان کے بارے میں کسی مسلمان کے کان میں کوئی ایسی بات پڑے جو اس حسن ظن کو محروم کرنے والی ہو تو ہم اس کو ایک سوغات سمجھ کر پورا قبول نہ کرلے اور اس کی نقل و روایت نہ شروع کر دے بلکہ اس کو رد کر دے اور اس وقت تک اس کو باور نہ کر یجب تک اس کے سامنے اس کا کوئی معقول ثبوت نہ آجائے۔ اس طرح کے معاملات میں غیر جانبداری کا رویہ بھی جائز نہیں ہے کہ آدمی اس کو پرایا جھگڑا سمجھ کر نظر انداز کر دے کہ دوسرا بدنام ہو را ہے، مجھے اس قضیے سے کیا سروکار ! بلکہ حتی الامکان اسے اپنے بھائی کی مدافعت کرنی چاہئے، اس لئے کہ ہر مسلمان پر اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت وآبرو کی حفاظت ایک فرض ہے۔ اسلامی معاشرہ کے اسی اخلاقی اصول پر یہاں مسلمانوں کو متنبہ فرمایا ہے کہ جب تمہارے کانوں میں یہ بات پڑی تو آخر تم نے ایک دوسرے کے ساتھ حسن ظن سے کام کیوں نہ لیا اور صاف صاف یہ کیوں نہ اعلان کردیا کہ یہ کھلا ہوا بہتان اور ایک صریح تہمت ہے۔ ہمارے معاشرہ کا فساد مزاج ایک طرف اسلامی معاشرے کے اس اخلاقی اصول کو سامنے رکھیے اور دوسری طرف اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج اس کے بالکل برعکس اصول کار فرما ہے۔ آج نظریہ یہ ہے کہ ہر شخص سوء ظن کا مستحق ہے الاآن کہ کسی شخص کے ساتھ اپنی کوئی شخصی یا گروہی غرض وابستہ ہو اور دوسروں کی نسبت سنسنی پیدا کرنے والی افواہیں پھیلانا تو اس زمانے میں ایک مستقل فن اور ایک نہایت کا میاب پیشہ بن گیا ہے۔ ہماری قوم میں کتنے اہل قلم ہیں جن کا پیشہ ہی یہی ہے کہ وہ اسی طرح کی افواہیں کی تلاش میں ہوئی صبح اور رکھ کر کان پر گھرے قلم نکلے یہ افواہیں نہایت جلی عنوانات سے اخبارات و رسائل میں چھپتی ہیں اور سب سے زیادہ کامیاب اخبارات و رسائل وہی ہیں جو اس طرح کی افواہیں ایاد کرنے میں سب سے زیادہ شاطر ہیں۔ معاشرے کے فساد مزاج کا حال یہ ہے کہ لوگ اس طرح کی چیزیں پڑھتے ہیں اور ھذا افک مبین کہنا تو درکنار ان کی ہر بات پر امنا و صدقنا کہتے اور وحی والہام سمجھ کر ان کی نقل و روایت کرتے ہیں۔
Top