Tadabbur-e-Quran - An-Noor : 11
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُوْ بِالْاِفْكِ عُصْبَةٌ مِّنْكُمْ١ؕ لَا تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّكُمْ١ؕ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ؕ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ مَّا اكْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ١ۚ وَ الَّذِیْ تَوَلّٰى كِبْرَهٗ مِنْهُمْ لَهٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ جَآءُوْ بالْاِفْكِ : بڑا بہتان لائے عُصْبَةٌ : ایک جماعت مِّنْكُمْ : تم میں سے لَا تَحْسَبُوْهُ : تم اسے گمان نہ کرو شَرًّا : برا لَّكُمْ : اپنے لیے بَلْ هُوَ : بلکہ وہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر ہے تمہارے لیے لِكُلِّ امْرِۍ : ہر ایک ٓدمی کے لیے مِّنْهُمْ : ان میں سے مَّا اكْتَسَبَ : جو اس نے کمایا (کیا) مِنَ الْاِثْمِ : گناہ سے وَالَّذِيْ : اور وہ جس تَوَلّٰى : اٹھایا كِبْرَهٗ : بڑا اس کا مِنْهُمْ : ان میں سے لَهٗ : اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے فتنہ افک برپا کیا وہ تمہارے ہی اندر کا ایک گروہ ہے۔ تم اس چیز کو اپنے لئے بری نہ خیال کرو بلکہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر ایک نے جو گناہ کمایا وہ اس کے حساب میں پڑا اور جو اس فتنہ کا اصلی بانی ہوا ہے اس کے لئے تو ایک عذاب عظیم ہے
آگے کا مضمون ……آیات 26-11 آگے فتنہ افک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس موقع پر مسلمانوں کی ایک جماعت سے صادر ہوئیں کہ وہ بھی منافقین کے اٹھائے ہوئے فتنہ میں نادانستہ شریک ہوگئے اور بےسوچے سمجھے اسی طرح کی باتیں بولنے لگے جس قسم کی باتیں منافقین پھیلانی چاہتے تھے۔ حالانکہ مسلمانوں کے باہمی تعلق کی بنیاد اعتماد او کامل حسن ظن پر ہونی چاہئے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے دوسرے بھائی بہن کی نسبت کوئی بری بات سنے تو اس وقت تک وہ اس کو قبول نہ کرے اور نہ زبان پر لائے جب تک اس کی پوری تحقیق نہ ہوجائے۔ اسی سلسلہ میں منافقین اور ان کے سرپرسوتوں کی در پردہ اس خواہش اور کوشش کا سراغ دیا ہے کہ وہ طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ اکھاڑ دینے کے در پے ہیں اس وجہ سے ان سے پوری طرح ہوشیار رہنا چاہئے اور خود اپنے ہاتھوں ان کی مقصد برآری کا سامان نہیں کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے جو ضروری ہدایات ہیں وہ بھی اسی ذیل میں دی گئی ہیں اور جو لوگ بالکل نادانستہ اس فتنہ میں ملوث ہوگئے تھے ان سے درگزر کی ہدایت بھی فرمائی گئی ……اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمایئے۔ فتنہ افک افک جھوٹی، من گھڑت، خود تراشیدہ اور خلاف حقیقت بات کو کہتے ہیں۔ یہاں اس سے اشارہ اس فتنہ کی طرف ہے جو غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کو متہم کرنے کے لئے برپا کیا۔ بعض جھوٹ ایسے ہوتے ہیں جن کا ذکر بھی زبان پر لانا گوارا نہیں ہوتا اور یہ جھوٹ تو تمام مسلمانوں کی ماں سے متعلق تراشا گیا تھا اس وجہ سے قرآن نے اس کی طرف لفظ افک سے اشارہ کر کے اس کو نظر انداز کردیا۔ بس اتنا پتہ دے دیا کہ اس کے ایجاد کرنے والے اور اس کو پھیلانے والے کون لوگ ہیں تاکہ یہ انذازہ ہوجائے کہ جس منبع فاسد سے یہ بات چلی ہے اس کی پھیلائی ہوئی بات جائے خود نہ قابل ذکر ہے اور نہ لائق غور و تحقیق البتہ اس سے جو سبق حاصل ہوئے ہیں وہ سب کے لئے حر زجان بنانے کے لئے قابل ہیں۔ چناچہ قرآن نے نفس واقعہ کی نوعیت کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذی فہم مسلمانوں کے اندر نفس واقعہ کے افتراء و بہتان ہونے سے متعلق کوئی تردد نہیں پایا جاتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ منافقین کا اٹھایا ہوا فتنہ ہے لیکن جب کوئی سنسنی پیدا کرنے وال بات عوام میں پھیلا دی جاتی ہے تو جو لوگ زیادہ معاملہ فہم نہیں ہوتے وہ بےسمجھے بوجھے اس کی نقل و روایت شروع کردیتے ہیں۔ 1 منافقین کی طرف اشارہ عصبۃ منکم سے اشارہ منافقین کے اس مار آستین گروہ کی طرف ہے جو مسلمانوں کے اندر گھسا ہوا تھا۔ ان کا سردار عبداللہ بن ابی تھا چونکہ اپنے ظاہری طور طریق میں یہ لوگ مسلمانوں سے الگ نہیں تھے اس وجہ سے ان کو مسلمانوں کے اندر گھس کر اپنا زہر پھیلانے کا موقع مل جاتا اور بہت سے سادہ لوح مسلمان ان کے چکموں میں آجاتے۔ یہاں قرآن نے عصبۃ منکم کہہ کر انہی کی طرف انگلی اٹھائی ہے اور مقوصد اس اشارے سے مسلمانوں کو ان کی طر سے ہوشیار کرنا ہے کہ یہ تمہارے اندر ہی گھسے ہوئے ایک گرہ کا اٹھایا ہوا فتنہ ہے، ان سے ہوشیار رہو۔ اس فتنہ سے اندر خیر کے پہلو لاتحسبوہ شراتکم بل ھو خیرلکم یعنی ان شریروں نے یہ فتنہ جو اٹھایا یہ تمہارے حق میں برا نہیں ہوا بلکہ اگر تم اس سے صحیح فائدہ اٹھا ئو تو اس میں تمہارے لئے بہت سے پہلو خیر کے ہیں۔ خیر کا ایک نمایاں پہلو تو اس کے اندر یہی تھا کہ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو اپنے اندر کے ایک 1۔ تاریخ و سیرت کی کتابوں سے واقعہ کی نوعیت صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ نبی ﷺ غزوہ بنی مصطق (واقع 6 ھ) سے مدینہ منورہ واپس ہو رہے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ ایک الگ اونٹ پر ہم سفر تھیں۔ راستہ میں فوج نے شب میں کہیں پڑائو ڈالا۔ فوج کے کوچ سے پہلے ام المومنین ضرورت سے باہر نکلیں۔ اتنے میں فوج کے کوچ کا حکم ہوگیا۔ قافلہ روانہ ہوگیا اور ساتھ ہی ام المومنین کا ساربان بھی یہ سمجھ کر روانہ ہوگیا کہ آپ اپنے ہودج میں سوار ہیں۔ ام المومنین جب جگہ پر واپس آئیں اور دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوگیا تو شب میں اس کے سوا انہیں کوئی اور تدبیر نظر نہیں آئی کہ وہیں ٹھہر جائیں تان کہ اللہ تعالیٰ کوئی راہ پیدا کرے۔ حضرت صفوان صحابی اس خدمت پر مامور تھے کہ وہ قافلہ کے پیچھے پیچھے چلیں تاکہ بھولی بسری چیزوں کا جائزہ لے سکیں۔ جب صبح کو وہ پڑائو کی جگہ پر پہنچے اور دیکھا کہ ام المومنین پے چھ رہ گئیں تو انہوں نے انا للہ پڑھا۔ بالآخر اپنا اونٹ بٹھایا۔ ام المومنین اس پر سوار ہوگئیں اور انہوں نے مہار پکڑ کر اونٹ کو قافلے سے جا ملایا۔ فوج کے کوچ و مقام کے دوران میں اس قسم کے واقعہ کا پیش آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن منافقین نے اسی ذرا سی بات کو ایک افسانہ بنا ڈالا۔ مار آستین گروہ کو اچھی طرح پہچان لینے کا موقع مل گیا۔ اگر یہ موقع نہ پیدا ہوتا تو معلوم نہیں اندر ہی اندر یہ سرطانی پھوڑا کیا شکل اختیار کرتا اور اس سے کیا مفاسد ظہور میں آتے ! دوسرا خیر کا پہلو اس کے اندر یہ نکلا کہ مسلمانوں کے اندر جو بعض کمزوریاں دبی ہوئی تھیں وہ اس امتحان سے ابھر کر سامنے آگئیں اور بروقت ان کی اصلاح و تدبیر ہوگئی۔ معاشرہ کے تزکیہ کے نقطہ نظر سے اس کی جو اہمیت ہے وہ بالکل واضح ہے۔ تیسرا پہلو اس میں خیر کا یہ ہے کہ اس واقعہ نے معاشرہ کی اصلاح و تنظیم سے متعلق بہت سے احکام و ہدایات کے نزول کے لئے ایک نہایت سازگار فضا پیدا کردی۔ اگر اس فضا کے پیدا ہوئے بغیر یہ احکام اترتے تو بہت سے لوگوں پر ان کی حقیقی قدر و قیمت واضح نہ ہو سکتی۔ لکل امری منھم ما اکتسب من الاثم والذی تولی کبرہ منھم لہ عذاب عظیم کبر بانی فتنہ کی طرف کسی جرم یا گناہ کے اصل اور بڑے حصہ کو کہتے ہیں الذی تولی کبرہ یعنی جو اس فتنہ کا اصل برپا کرنے والا ہوا ہے یہ اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف ہے۔ یہ نہایت خبیث منافق تھا۔ اس سے پہلے بھی یہ متعدد فتنے برپا کرچکا تھا اور اس فتنے کی تو ساری ذمہ داری اصلاً اسی پر تھی۔ اوپر کے ٹکڑے میں مسلمانوں کو تسلی تھی کہ تمہارے لئے تو یہ فتنہ بہ اعتبار سے موجب خیر ہی ہوا ہے البتہ ان اشرار و مفدسین کے لئے یہ باعث ہلاکت ہوا۔ ان میں سے جس نے جس درجہ کا اس فتنہ ہر اعتبار سے موجب خیر ہی ہوا ہے البتہ ان اشرار و مفسدین کے لئے یہ باعث ہلاکت ہوا۔ ان میں سے جس نے جس درجہ کا اس فتنہ میں حصہ لیا ہے وہ اپنے درجے کے اعتبار سے اس کی سزا بھگتے گا اور جو اس سارے طوفان کا اصل پانی ہے اس کے لئے تو آخرت میں ایک عذاب عظیم ہے۔
Top