Jawahir-ul-Quran - An-Naml : 50
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
بڑی ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کے درمیان امتیاز کردینے والی کتاب اتاری تاکہ وہ اہل عالم کے لئے ہوشیار کردینے والا بنے !
قرآن اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس طرح تعاظم اور تعالیٰ اور اس باب کے دوسرے صیغوں کے اندر مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے اسی طرح تبارک کے اندر بھی مبالغہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی بڑی ہی بابرکت اور بافیض ہستی ہے وہ جس نے لوگوں کے انذار کے لئے، اپنے بندے پر، ایک ایسی کتاب اتاری جو حق اور باطل کے درمیان امتیاز کے لئے ایک حجت قاطع کی حیثیت رکھتی ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس نعمت کی قدر اور اس کتاب کی روشنی میں اپنی گمراہیوں کی اصلاح کریں، طرح طرح کے اعترضا ات اٹھا کر اس کی مخالفت اور اللہ کے رسول سے کسی معجزے یا کسی نشانی عذاب کا مطالبہ نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو اس کتاب کے بجائے وہ اپنے رسول کو کسی تازیانہ عذاب سے مسلح کر کے بھی بھیج سکتا تھا۔ اس کے لئے یہ کام ذرا بھی مشکل نہیں تھا لیکن اس نے اپنی عظیم مہربانی کی وجہ سے یہ پسند فرمایا کہ وہ لوگوں کو ایک ایسی روشنی دکھائے جو لوگوں کو پیش آنے والے خطرات سے آگاہ کر کے فوز و فلاح کی راہ سعادت کی طرف رہنمائی کیر۔ قرآن کو فرقان کے لفظ سے تعبیر کر کے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ یہ کتاب اپنے دعا دی اور اپنے پیش کرنے والے کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے بجائے خود دلیل و حجت ہے، یہ کسی خارجی دلیل کی محتاج نہیں ہے۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو رسول کے ہاتھوں تقسیم ہونے والی اس نعمت عظمیٰ سے متمتع ہونے کے بجائے اس سے ایسی چیزوں کا مطالبہ کریں جو ان کے لئے خیر کے بجائے تباہی کا باعث ہوں۔ نبی ﷺ کے لئے ایک خاص برمحل تصفات علی عبدہ میں نبی ﷺ کے لئے ایک خاص التفات پایا جاتا ہے۔ اس التفات کا یہاں ایک خاص محل ہے۔ آگے کفار کے وہ اعتراضات نقل ہوئے ہیں جو و ہنہایت تحقیر آمیز انداز میں نبی ﷺ پر کرتے تھے۔ یہ اعتراضات زیادہ تر مکہ اور طائف کے دولت مندوں کے اٹھائے ہوئے تھے۔ وہ اپنی ملای برتری کے گھمنڈ میں نبی ﷺ کی دنیوی اسباب و وسائل سے بےتعلقی پر خاص طور پر چوٹیں کرتے اور اس چیز کو آپ ﷺ کی رسالت کی تردید کی ایک بہت بڑی دلیل کی حیثیت سے پیش کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں متکبرین کی اسی ذہنیت کو سامنے رکھ کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ خاص پر فرقان کی شکل میں جو نعمت عظمیٰ اتاری ہے اس کے بعد وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ خلق کے انذار کے وہ جس مشن پر مامور ہے اس کی تکمیل کے لئے وہ جس زاد و راحلہ کا محتاج ہے وہ سب بدرجہ کمال اس کے پاس موجود ہے۔ یہ آیت اس سورة کی تمہید ہے۔ اس کے یہ مضمرات جو ہم نے واضح کئے ہیں وہ آگے کے مباحث سے انشاء اللہ مزید واضح ہوجائیں گے۔
Top