Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 128
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ
اَتَبْنُوْنَ : کیا تم تعمیر کرتے ہو بِكُلِّ رِيْعٍ : ہر بلندی پر اٰيَةً : ایک نشانی تَعْبَثُوْنَ : کھیلنے کو (بلا ضرورت)
کیا تم ہر بلندی پر عبث یادگاریں تعمیر کرتے رہو گے
129-128 ریع اس بنلد زمین کو کہتے ہیں جو دور سے نظر آئے۔ ایۃ یہاں نشانی اور یادگار کے مفہوم میں ہے۔ مصالع قلعوں اور گڑھیوں کے لئے بھی آتا ہے اور محلوں اور ایوانوں کے لئے بھی۔ لعلکم فصیح عربی میں کالکم یعنی گویا کہ کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ فساد تمدن پر تنبیہ یہ حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم کو اس کے فاسد تمدن پر متنبہ فرمایا کہ مکانوں اور عمارتوں کی تعمیر ضرورت کے لئے ہے نہ کہ محض نمائش اور تفاخروتنا فس کے لئے۔ تمہارا حال یہ ہے کہ شوق تعمیر کا جنون اس طرح تم پر مستولی ہے کہ تمہارا ہر دولت مند اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ ہر بلند اور خوش منظر جگہ پر اس کی دولت و ثروت کی کوئی یادگار اور اس کے قیام و تفریح کے لئے کوئی کوٹھی اور بنگلہ بن جائے اور یہ کام کسی واقعی انفرادی یا اجتماعی ضرورت کو سامنے رکھ کر نہیں ہو رہا ہے بلکہ بالکل عبث محض نمائش اور تفاخر کے لئے ہو رہا ہے اور اس میں تمہارے انہماک کا یہ حال ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کو ہمیشہ میں رہنا ہے۔ تم نے گزر گاہ کو منزل سمجھ کر یہیں ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور تمہاری ساری توجہ اس کی تعمیر و ترقی پر مرکوز ہے۔ کسی کو ہوش ہی نہیں کہ اصل منزل آگے ہے اور اس کے لئے بھی کوئی تیاری ضروری ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت ہود نے اپنی قوم کے اعیان و امراء کو خطاب کر کے فرمائی ہے۔ جب آخرت کو نظر انداز کر کے صرف دنیا مطلوب بنتی ہے تو تمدن کا مزاج بالکل فاسد ہوجاتا ہے۔ جن کے پاس وسائل و ذرائع ہوتے ہیں وہ ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری کوٹھی کے جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کوئی قابل ذکر جگہ ایسی نہ رہ جائے جہاں ان کی کوئی شاندار یادگار تعمیر نہ ہوجائے۔ دوسری طرف حال یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں لاکھوں غرباء کے پاس سر چھپانے کے لئے جھونپڑے بھی نہیں ہوتے اور ان میں سے کتنے انہی شاندار کوٹھیوں کے سامنے فٹ پاتھوں پر سردی سے ٹھٹھر کر یا لو سے جھلس کر مر جاتے ہیں۔ تمدن کا یہ فساد اول تو اس بات کا نتیجہ ہے کہ حاجیات و ضروریات سے پہلے لوگ کمالیات و تعیشات کے میدان میں مقابلہ شروع کردیتے ہیں اور دوسرا سبب اس کا آخرت فراموشی ہے۔ حضرت ہود نے یہاں فساد کے ان دونوں اسباب کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ پہلے سبب کی طرف لفظ تعبثون، اشارہ کر رہا ہے اور دوسرے سبب کی طرف لعلکم تخلدون غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ حضرت ہود کی یہ تشخیص اگرچہ اپنی قوم کے تمدن سے متعلق ہے لیکن یہ ٹھیک ٹھیک ہماری وقم کے تمدن پر بھی منطبق ہو رہی ہے۔ یہاں ان اشارات پر کفایت فرمائیے۔ انشاء اللہ سورة نمل کی تفسیر میں ہم صالح اور فاسد تمدن پر مزید روشنی ڈالیں گے۔
Top