Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 211
وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَهُمْ وَ مَا یَسْتَطِیْعُوْنَؕ
وَمَا يَنْۢبَغِيْ : اور سزاوار نہیں لَهُمْ : ان کو وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : اور نہ وہ کرسکتے ہیں
نہ یہ ان کے لئے لائق ہے اور نہ یہ ان کے بس کا ہے
یہ دلیل ارشاد ہوئی ہے اس بات کی کہ کیوں یہ شیطانی کلام نہیں ہو سکتا۔ پہلی دلیل اس کی یہ ہے کہ وما ینبغی لھم، یعنی اس طرح کا کلام اتنارنا شیاطین کے لائق کام نہیں ہیں اور اس لئے کہ یہ شیاطین کے مقدار اور ان کے مشن کے بالکل خلاف ہے۔ یہ کلام اتار کر آخر اپنے ہی ہاتھوں وہ اپنی سلطن بربادکیوں کریں گے۔ ابعینیہ یہی بات سیدنا مسحا ؑ نے اپنی وقت کے فقیہوں اور فریسیوں کے جواب میں فرمائی تھی جب انہوں نے آپ کے معجزات کے اثر کو مٹانے کے لئے عوام میں پھیلانا شروع کیا ہے کہ یہ بد رحوں کو لوگوں کے اندر سے نکالنے کا جو کرشمہ دکھاتے ہیں یہ بھوتوں کے سردار بعلز بول کی دد سے دکھات ہیں ان کے جواب میں سیدنا مسخ نے جو کچھ فرمایا وہ انجیل میں یوں نقل ہوا ہے۔ ”لیکن ان میں سے (اشارہ فقیہوں اور فریسیوں کی طرف ہے) بعض نے کہا یہ تو بدروحوں کے سردار بعلز بول کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے … مگر اس نے صحضرت مسیح نے) ان کے خیالات کو جان کر اس سے کہا جس سلطنت میں پھوٹ پڑے وہ ویران ہوجاتی ہے اور جس گھر میں پھوٹ پڑے وہ برباد ہوجاتا ہے اور اگر شیطان بھی اپنا مخالفت ہوجائے تو اس کی سلطنت کس طرح قائم رہے گی ؟ لوقاب 11-16-18 بعینیہ یہی بات قرآن نے ماینبعی لھم کے دو لفظوں میں فرما دی ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ ومایستطیعون وہ اس طرح کا کلام نازل کر بھی نہیں کستے۔ قرآن نے قریش کو یہ تحدی بار بار کی کہ اگر تم اس کلام کو انسانی کلام سمجھتے ہو تو اس کے مانند کوئی اپنے شریکوں شاعروں کاہنوں اور جنوں کی مدد سے پیش کرو لیکن وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ کلام جنات، وشیاطینکے بس کا کام نہیں ہے۔ اگر ان کے بس کا ہوتا تو ان کے ساتھ سب سے زیادہ گہری دوستی تو قریش اور اس کے کاہنوں کی تھی۔ آخر انہوں نے ان کی مدد کیوں نہیں کی ! تیسرا جواب یہ دیا کہ انھم عن السمع المعزدلون یعنی ان کو ملاء اعلیٰ کی باتوں کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اگر تمہارا یہ گمان ہے کہ یہ ملاء اعلیٰ کی باتوں کی کچھ سن گن لے لیتے ہیں تو یہ محض واہمہ ہے۔ اب تک اگر یہ کچھ کان لگانے اور ٹوہ لینے کی کوشش کرتے بھی رہے ہیں تو اب اس سے بھی روک دیئے گئے ہیں۔ سورة جن میں خود جنتا کی زبان سے ان کا اعتراف یوں نقل ہوا ہے۔ وانا لمسنا السمآء فوجدنھا ملنت حرساً شدیداً وشھدوان کذ نصعف منھا مقاعد للسمع ط فمن یستمع الان یحبانہ شھادا عداً الجن 5-78 اور ہم نے آسمان کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ اس کو مضبوط پہرے اور شہابوں سے بھر دیا گیا ہے اور ہم اس میں مختلف ٹھکانوں میں کچھ سننے کے لئے بیٹھتے تھے لیکن اب جو کوئی کان لگائے گا تو ایک شہاب کو اپنی گھات میں پائے گا۔ سورة جن کی یہ آیت نظام ملکوت میں ایک اہم انتظام کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو قرآن کو ہر قسم کی شیطانی مداخلت سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ انشاء اللہ سورة کی تفسیر میں ہم اس کی وضاحت کریں گے۔
Top