Tadabbur-e-Quran - Ash-Shu'araa : 72
قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَۙ
قَالَ : اس نے کہا هَلْ : کیا يَسْمَعُوْنَكُمْ : وہ سنتے ہیں تمہاری اِذْ : جب تَدْعُوْنَ : تم پکارتے ہو
اس نے کہا، کیا یہ تمہاری سنتے ہیں جب تم ان کو پکارتے ہو
آیت 74-73 حضرت ابراہیم ؑ نے ان بتوں کی بےحقیقتی واضح کرنے کے لئے سوال کیا کہ جب تم ان سے دعا فریاد کرتے ہو تو کیا یہ تمہاری دا فریاد سنتے ہیں یا تمہیں کوئی نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں یا پہنچا سکتے ہیں تو آخر یہ کس مرض کی دوا ہیں کہ تم انکی پرستش کرتے ہو ! قوم کے لوگوں نے جواب دیا کہ یہ باتیں ہم نہیں جانتے۔ بس ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے پایا ہے، سو ہم اسی طرح کرتے رہیں گے۔ اپنے آباء و اجداد کے طریقے کو ہم تمہارے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ یہ حضرت ابراہیم ؑ کی دعوت کے اس دور کی باتیں نقل ہو رہی ہیں۔ جب وہ تمام عقلی و نقلی اور آفاقی و انفسی دلائل سے اپنی قوم پر حجت تمام کرچکے ہیں۔ آگے کی آیات سے واضح ہوجائے گا کہ اس کے بعد انہوں نے قوم پر حجت تمام کرچکے ہیں۔ آگے کی آیات سے واضح ہوجائے گا کہ اس کے بعد انہوں نے قوم سے اعلان برأت کر کے ہجرت فرمائی ہے۔ اس مرحلے میں ظاہر ہے کہ نبی کی دعوت کا انداز بدل جاتا ہے اور قوم کے جواب کا انذار بھی بدل جاتا ہے۔ پیغمبر جو کچھ کہتا ہے اس کی نوعیت قوم کی عقل اور اس کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی آخری کوشش کی ہوتی ہے اور قوم جو کچھ جواب دیتی ہے اس کی نوعیت آخری ضد اور ہٹ دھرمی کے مظاہرے کی۔ یہ دونوں ہی باتیں یہاں سوال و جواب سے واضح ہو رہی ہیں۔
Top