Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 3
اِذْهَبْ بِّكِتٰبِیْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَیْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَا ذَا یَرْجِعُوْنَ
اِذْهَبْ : تو لے جا بِّكِتٰبِيْ : میرا خط ھٰذَا : یہ فَاَلْقِهْ : پس اسے ڈال دے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف ثُمَّ تَوَلَّ : پھر لوٹ آ عَنْهُمْ : ان سے فَانْظُرْ : پھر دیکھ مَاذَا : کیا يَرْجِعُوْنَ : وہ جواب دیتے ہیں
یہ میرا نامہ لے کر جائو اور ان کے پاس ڈال دیجیو اور ہٹ کر دیکھیو کہ کیا ردعمل وہ ظاہر کرتے ہیں
آیت 30-29 حضرت سلیمان کا نامہ ملکہ سبا کے نام نامہ کے موصول ہونے کے بعد ملکہ نے فوراً اپنے درباریوں سے مشورہ کیا۔ ان کو بتایا کہ انفی القی الی کتب کریم (میرے پاس ایک معزز گرامی نامہ ڈلوایا گیا ہے) اس انداز تعارف سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ پرندوں کے ذریعہ سے خطوط بھیجنے اور بھجوانے کا طریقہ اس زمانے میں کم از کم بادشاہوں کے ہاں، ایک معلوم و معروف طریقہ تھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو مکلہ کو بھی اس طرح، بغیر کسی قاصد یکے خط آنے پر تعجب ہوتا اور درباری بھی اس پر تعجب کا اظہار کرتے لیکن نفس خط کے وصول ہونے پر نہ مکلہ نے کسی تعجب کا اظہار کیا نہ ان کے درباریوں نے بلکہ ملکہ نے بھی اس کا ذکر ایک عام واقعہ کی حیثیت سے کیا اور درباریوں نے بھی اس کا عادی واقعہ کی حیثیت سے سنا۔ دوسری یہ کہ ملکہ نے اس خط کا ذکر ایک معزز خط کی حیثیت سے کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب خط … حضرت سلیمان … کی عزت و عظمت ان کے اور ان کے درباریوں کے دل میں پہلے سے موجود تھی۔ اس کے شواہد تورات اور تالمود میں بھی موجود ہیں۔ اور آگے قرآن میں بھی اس کے اشارات آ رہے ہیں۔ انہ من سلیممن وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ملکہ نے اصل خط کا خلاصہ پیش کیا کہ یہ سلیمان کی جانب سے ہے اور اس کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہوا ہے۔ قدیم زمانے کے سلاطین و امراء کے خطوط و فرامین کا طریقہ یہی رہا ہے کہ ان کا آغاز مرسل اور مرسل الیہ کے نام سے ہوتا۔ ملکہ نے چونکہ خط کا پورا متن نہیں بلکہ خلاصہ ہی پیش کیا اس وجہ سے مسرل کے نام اور اس کے بعد خاص طور پر اس کے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہونے کا ذکر کیا۔ اس سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی تاریخ پر بھی روشنی پڑتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ نے خط کے اس سرنامہ کو خاص طور پر اہمیت دی اور یہ چاہا کہ اس کے اندر جو دعوتی روح ہے اس کو اس کے درباری بھی سمجھیں۔ الا تعلوا علی واتونی مسلمین یہ حضرت سلیمان کے خط کا اصل مدعا ملکہ نے بتایا کہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ میرے مقابل میں سرکشی نہ کرو بلکہ میری اطاعت میں داخل ہو جائو۔ اگرچہ قرینہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ نے حضرت سلیمان کے خط کا خلاصہ پیش کیا ہے لیکن یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ قدیم زمانے میں خطوط اور فرامین طویل نہیں لکھ جاتے تھے بلکہ نہایت مختصر اور قل و دل ہوتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے خطوط سے بھی اسی کی شہادت ملتی ہے اس وجہ سے اگر حضرت سلیمان کا خط اتنا ہی رہا ہو جب بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
Top