Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 14
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ
وَلَمَّا : اور جب بَلَغَ اَشُدَّهٗ : وہ پہنچا اپنی جوانی وَاسْتَوٰٓى : اور پورا (توانا) ہوگیا اٰتَيْنٰهُ : ہم نے عطا کیا اسے حُكْمًا : حکمت وَّعِلْمًا : اور علم وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نَجْزِي : ہم بدلہ دیا کرتے ہیں الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
پس جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور پورا ہوا تو ہم نے اس کو قوت فیصلہ عطا فرمائی اور علم بخشا اور خوب کاروں کو ہم اس طرح صلہ دیتے ہیں
حضرت موسیٰ کی جوانی کا اصلی جمال بلغ اشدہ سے جوانی کو پہنچنا مراد ہے اور اس کے ساتھ لفظ استوآء عقلی و مزاجی اعتدال و توازن کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یعنی جب حضرت موسیٰ ؑ جسمانی اعتبار سے جوانی کو اور عقلی و مراجی اعتبار سے اعتدال و توازن کی عمر کو پہنچے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جوانی بجائے خود کو کوئی بڑی وقیع چیز نہیں ہے اگر اس کے ساتھ عقلی و مزاجی اعتدال کا جمال نہ ہو۔ مقلم سے مراد قوت فیصلہ اور علم سے مراد خدا کی معرفت ہے۔ اس حکم و علم کے مختلف مدارج میں اس کا اعلیٰ درجہ وہ ہے جو حضرات انبیاء (علیہم السلام) کو حاصل ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن میں بعینیہ یہی الفاظ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے علم کے لئے بھی استعمال ہوئے ہیں لیکن یہاں ظاہر ہے کہ وہ علم و حکمت مراد نہیں ہے اس لئے کہ یہ حضرت موسیٰ کی ابتدائی زندگی کے احوال بیان ہو رہے ہیں۔ نبوت ان کی جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ اس کے بہت بعد ملی ہے۔ فرمایا کہ جب حضرت موسیٰ جوانی کو پہنچے اور ان کی عقل اور ان کے مزاج میں اعتدال و توازن آگیا تو ہم نے ان کو حکمت و معرفت سے نوازا۔ کذلک نجزی المسحنین، جو لوگ خوب کار ہوتے ہیں ہم ان کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔ محسنین سے یہاں وہ لوگ مراد ہیں جو اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کو ان کے صحیح مصرف میں بالکل صحیح طریقہ پر استعمال کرتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کو ہم اپنے علم و حکمت میں سے حصہ دیتے ہیں۔ یہی علم و حکمت انسان کی قوتوں اور صلاحیتوں کا اصلی جمال و کمال ہے۔ اگر کوئی شخص یہ نہ حاصل کرسکا تو اس نے اپنی ساری صلاحیتیں بھی برباد کیں اور اپنی جوانی بھی غارت کی۔
Top