Tadabbur-e-Quran - Al-Qasas : 47
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہوتا اَنْ تُصِيْبَهُمْ : کہ پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا قَدَّمَتْ : اس کے سبب۔ جو بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ (ان کے اعمال) فَيَقُوْلُوْا : تو وہ کہتے رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَوْلَآ : کیوں نہ اَرْسَلْتَ : بھیجا تونے اِلَيْنَا : ہماری طرف رَسُوْلًا : کوئی رسول فَنَتَّبِعَ : پس پیروی کرتے ہم اٰيٰتِكَ : تیرے احکام وَنَكُوْنَ : اور ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
(اور ہم رسول نہ بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان پر ان کے اعمال کے سبب سے کوئی آفت آئی تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہل ایمان میں سے بنتے
آگے کا مضمون …61-47 اوپر کی آیات التفات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اسی طرح آنحضرت ﷺ کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کی بعثت بہت بڑی رحمت ہے اگر وہ اس کی قدر کریں گے اور یہ بہت بڑی نقمت بھی ہو سکتی ہے انہوں نے اس کی ناقدری کی آگے اسی مضمون کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ اس رسول کی بعثت سے مقصود اتمام حجت ہے۔ اب اگر یہ لوگ کسی عذاب کی گرفتار میں آئے تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آگاہ نہیں کیا۔ لیکن ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ یہ یہودیوں سے سیکھ کر ہمارے پغمبرر ﷺ پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کو بھی اس قسم کے معجزے کیوں نہیں دیئے گئے جس قسم کے معجزے حضرت موسیٰ کو دیئے گئے۔ ان سے پوچھو کہ حضرت موسیٰ کی قوم نے کب ان کے معجزات کی قدر کی جو تم سے یہ توقع کی جائے کہ اگر اس قسم کے معجزے تم کو دکھائے گئے تو تم ان کی قدر کرو گے ! اسی ضمن میں ان اہل کاتب کی تحسین کی گئی ہے ج واپنے صحیفوں کی پیشین گوئیوں کی بنا پر قرآن کی تائید اور بڑے صبر کے ساتھ اپنی قوم کے غوغا کا مقابلہ کر رہے تھے۔ نیز قریش کے اس خدشہ کا جواب دیا گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے قرآن کی دعوت قبول کرلی تو اس ملک سے ان کی جڑ اکھڑ جائے گی۔ ان کو تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اس دعوت کے قبول کرنے کی صورت میں تو ان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ البتہ اگر انہوں نے اس کو رد کردیا تو سنت الٰہی کے بموجب ان کی تباہی یقینی ہے اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ لولا کا جواب اگر قرینہ واضح ہو تو حذف ہوجایا کرتا ہے۔ یہاں بھی حذف ہے۔ ترجمہ میں ہم نے اس کو کھول دیا ہے۔ بنی اسماعیل پر احسان اور ان کو تنبیہ یہ قریش یا بالفظ دیگر بنی اسماعیل پر امتنان بھی ہے اور ان کو تنبیہ بھی مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے تو بغیر کسی رسول کی بعثت کے بھی، ان کے اعمال کی پاداش میں، ان کو پکڑ لیتے لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا تاکہ وہ یہ عذر نہ کرسکیں کہ اگر ہمارے پاس خدا کوئی رسول بھیجتا تو ہم اللہ کی آیات کی پر یوی کرنے والے اور رسول پر ایمان لانے والے بنتے۔ ان کے اس عذر کو ختم کردینے اور ان پر حجت تمام کردینے کے لئے ہم نے ان کے اندر اپنا رسول بھی بھیج دیا ہے۔ اب اگر انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی تو یاد رکھیں کہ ان پر اللہ کی حجت پوری ہوچکی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور فطرت کی جو رشنی عطا فرمائی ہے وہ بھی انسان کو گمراہی اور بدعملی کی زندگی سے بچانے کے لئے کافی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ مجرد اس فطری ہدایت ہی کی بنا پر لوگوں کو ان کی بدعملیوں کی سزا دینا تو یہ بات عدل کے خلاف نہ ہوتی لیکن مزید اتمام حجت و قطع عذر کے لئے اس نے اپنے رسول بھی بھیج دیئے جس کے بعد کسی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ اسی وجہ سے صفت الٰہی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ جس قوم نے بھی رسول کی تکذیب کی وہ صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی۔
Top