Tadabbur-e-Quran - Al-Ankaboot : 53
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ١ؕ وَ لَوْ لَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّى لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُ١ؕ وَ لَیَاْتِیَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ آپ سے جلدی کرتے ہیں بِالْعَذَابِ ۭ : عذاب کی وَلَوْلَآ : اور اگر نہ اَجَلٌ : میعاد مُّسَمًّى : مقرر لَّجَآءَهُمُ : تو آچکا ہوتا ان پر الْعَذَابُ ۭ : عذاب وَلَيَاْتِيَنَّهُمْ : اور ضرور ان پر آئے گا بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : انہیں خبر نہ ہوگی
اور یہ لوگ تم سے عذاب کے لئے جلدی مچائے ہوئے ہیں اور اگر اس کے لئے ایک مدت مقرر نہ ہوتی تو ان پر عذاب آدھمکتا۔ اور وہ ان کے اوپر اچانک آجائے گا اور ان کو اس کی خبر بھی نہ ہوگی۔
ویستعجلوک بالعذاب ط ولولا احبل مسمی تجاھ ھم العذاب ط ولیا تینھم بغتۃ وھم لا یشعرون (53) اوپر جن نشانیوں کے مطالبے کا ذکر ہے ان میں خاص طور پر عذاب کی نشانی کے لئے قریش بہت مستعجل تھے۔ آنحضرت ﷺ جب قرآن کی تکذیب کی صورت میں ان کو عذاب سے ڈراتے تو اس سے ان کے پندار کو بڑی چوٹ لگتی اور وہ جھنھلا کر آپ ﷺ کو زک کرنے کے لئے یہ مطالبہ کرتے کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو تو جس عذاب کی دھمکی سنا رہے ہو وہ لائو، ہم اس کو دیکھنے کے لئے بےچین ہیں۔ فرمایا کہ عذاب کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک مدت مقرر ہے، اس مدت سے پہلے عذاب نہیں آتا۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ مقررہ سنت نہ ہوتی تو ان پر عذاب آدھمکتا۔ مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں اگر ان لوگوں کی اس جلد بازی کے باوجود دیر ہو رہی ہے تو اس دیر کا سبب نہ کسی کا پاس ولحاظ ہے، نہ کسی کی قوت و صولت ‘ اور نہ کسی تیاری کی ضرورت، بلکہ خود خدا کا اپنا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔ اس قانون کی وضاحت ہم اس کے محل میں کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قوموں کی تباہی کی دمت ان کے اخلاقی زوال کے پیمانے سے ناپ کر مقرر کی ہے۔ صرف وہی جانتا ہے کہ کب کسی قوم کو پیمانہ لبریز ہوا، کوئی دوسرا اس چیز کو نہیں جانتا۔ فرمایا کہ جب عذاب کا وقت آجائے گا تو وہ اچانک ان پر آدھمکے گا، وہ اس کے مقابل میں کوئی پیش بندی نہ کرسکیں گے۔
Top