Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 188
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَحْسَبَنَّ : آپ ہرگز نہ سمجھیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس پر جو اَتَوْا : انہوں نے کیا وَّيُحِبُّوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے بِمَا : اس پر جو لَمْ يَفْعَلُوْا : انہوں نے نہیں کیا فَلَا : پس نہ تَحْسَبَنَّھُمْ : سمجھیں آپ انہیں بِمَفَازَةٍ : رہا شدہ مِّنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ اپنی ان کرتوتوں پر مگن ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کاموں پر ان کو سراہا جائے جو انہوں نے کیے نہیں ان کو عذاب سے بری نہ سمجھو، ان کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔
فرمایا کہ جن کے کارنامے یہ کچھ ہیں، جنہوں نے حقیر دنیوی مفادات کی خاطر اس ڈھٹائی کے ساتھ شریعت فروشی کی ہے اور پھر اپنے اس کارنامے پر خوش بھی ہیں، جو چاہتے ہیں کہ اس کام کا کریڈٹ حاصل کریں جو انہوں نے کیا نہیں۔ فرمایا کہ ان کو عذاب الٰہی سے محفوظ نہ سمجھو، وہ دنیا میں بھی عذاب کی زد میں ہیں اور آخرت میں بھی ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ’ مفازۃ ‘ کے معنی نجات اور پناہ کی جگہ کے ہیں اور وَّيُحِبُّوْنَ اَنْ يُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوْا کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب پر اللہ تعالیٰ نے کتاب کی جو ذمہ داری ڈالی اور اس کے اظہار و اعلان، اس کی تعلیم و تبیین، اور اس کے اجرا و نفاذ سے متعلق جو عہد ان سے لیا اس کا کوئی جزو انہوں نے پورا نہیں کیا بلکہ الٹے اس کے کتمان اور تحریف کے لیے سازشیں کیں اور اس کو اپنے دنیوی اغراض کے لیے حقیر داموں بیچا لیکن اس کے باوجود ان کی خواہش ہیہ ہے کہ انہیں حامل کتاب سمجھا جائے، انہیں خدا کی برگزیدہ امت قرار دیا جائے اور ان کو دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کے تمام فضل و انعام اور تمام لطف و احسان کا حق دار مانا جائے۔ اہل کتاب کے اسی طرح کے لذیذ خواب ہیں جن کو قرآن نے سورة بقرہ میں ’ اَمانیّ ‘ باطل آرزؤوں سے تعبیر فرمایا ہے۔
Top