Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 189
وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے قَدِيْرٌ : قادر
اور اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ الایہ، یہ اوپر والی دھمکی کی تصدیق و توثیق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہی خدا ہی کے اختیار میں ہے، اس میں کسی اور کے زور و اثر کا کوئی دخل نہیں ہے۔ جو لوگ خدا کی سرکشی کر رہے ہیں وہ ہر وقت خدا کی مٹھی میں ہیں اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ ۔۔۔۔۔ فصل 39: اگلی آیات 190 تا 200 کا مضمون : خاتمہ سورة : اس مجموعہ آیات کی حیثیت خاتمہ سورة کی ہے اور یہ خاتمہ موازنہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہ بہت کچھ ملتا جلتا ہوا ہے سورة بقرہ کے خاتمہ سے۔ خاص طور پر اس میں جو دعا ہے تو بالکل عکس ہے اس دعا کا جس پر سورة بقرہ ختم ہوئی ہے۔ اس خاتمہ میں پہلے تو اس عالم گیر حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جہاں تک خدا کی قدرت و حکمت کی نشانیوں کا تعلق ہے ان سے تو آسمان و زمین کا گوشہ گوشہ معمور ہے۔ اصل شے نبی کی دعوت پر ایمان لانے والے کے لیے جو ضروری ہے وہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایسی سوختنی قربانی پیش کرے جس کو کھانے کے آسمان سے آگ اترے بلکہ یہ ہے کہ اس کی باتوں سننے کے لیے لوگوں کے کان کھلیں، آسمان و زمین میں تصرفات قدرت کے عجائب دیکھنے کے لیے لوگ اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کارخانہ کائنات کی حکمت وغایت پر غور کرنے کے لیے لوگ اپنے دماغوں اور اپنی عقلوں سے کام لیں۔ پھر فرمایا کہ جن کے بیدار ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے خدا کو یاد رکھتے ہیں اور آسمان و زمین کی خلقت پر غور کرتے رہتے ہیں وہ اس نتیجے پر خود پہنچ جاتے ہیں کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کو بنانے والے نے یوں ہی بےمقصد بنا ڈالا ہو اور یوں ہی اس کو ایک شتر بےمہار کی طرح چھوڑے رکھے بلکہ اس کے پیچھے ضرور غایت و مقصد اور جزا و سزا ہے۔ چناچہ وہ خدا سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ وہ ان کو انجام کر کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ آگے فرمایا کہ اس طرح کے بیدار عقل اور بیدار دل لوگ معجزوں اور کرشموں کی تلاش میں نہیں رہتے۔ ان کے کانوں میں جب دعوت حق پڑتی ہے تو اس کی صداقت کے جانچنے کے لیے کسوٹی خود ان کی عقل اور ان کے دل کے اندر ہوتی ہے وہ اس پر پرکھ کر خود اس کی قدر و قیمت پہچان لیتے ہیں۔ ان کے لیے پیغمبر کی دعوت اور اس کا چہرہ ہی سب سے بڑا معجزہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں کی طرف اشارہ فرمایا جو ان اوصاف کے اس عہد میں حقیقی مصداق تھے اور ان کی ان جاں بازیوں اور قربانیوں کا ذکر کیا جو اس دعوت حق کی راہ میں وہ پیش کر رہے تھے اور ان کے لیے اللہ کے پاس جو اجر عظیم ہے اس کی بشارت دی۔ آگے چند آیتوں میں اس بات کی وضاحت فرما دی کہ آج جو حق کے مخالفین زور لگا رہے ہیں اس سے کوئی مغالطہ نہیں ہونا چاہئے یہ مہلت جو ان کو ملی ہے اللہ ہی کی طرف سے ملی ہے اور اس کے بھی مصالح ہیں۔ یہ مہلت عارضی ہے جو بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے۔ انجام کار کی کامیابی خدا کے متقی اور وفادار بندوں ہی کے لیے ہے۔ آخر میں اہل کتاب کے اس گروہ کی تحسین فرمائی جو معاندین کے برعکس حق پر قائم رہا اور اسی نے پیغمبر ﷺ پر ایمان لانے کی توفیق پائی، فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے ہاں اپنی اس استقامت اور حق پرستی کا انعام پائیں گے۔ سب سے آخر میں مسلمانوں کو نہایت مختصر مگر جامع الفاظ میں ان باتون کی ہدایت فرمائی جن کا اہتمام اس ذمہ داری کے ادا کرنے کے لیے ضروری ہے جو آخری امت کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ڈالی تھی۔ اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔
Top