Tadabbur-e-Quran - Aal-i-Imraan : 77
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَشْتَرُوْنَ : خریدتے (حاصل کرتے) ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا اقرار وَاَيْمَانِهِمْ : اور اپنی قسمیں ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَا : نہیں خَلَاقَ : حصہ لَھُمْ : ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُھُمُ : ان سے کلام کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ يَنْظُرُ : نظر کرے گا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا يُزَكِّيْهِمْ : اور نہ انہیں پاک کرے گا وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو ایک حقیر قیمت کے عوض بیچتے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور اللہ نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔
”اشتراء“ کے لفظ پر سورة بقرہ کی تفسیر میں بحث گزر چکی ہے۔ جب مبادلہ چیز کا چیز سے ہو، جس کا عموماً قدیم زمانہ میں رواج تھا تو ہر شے مبیع بھی ہوسکتی ہے اور ثمن بھی۔ اس وجہ سے کسی شے کا اشتراء در حقیقت اس مفہوم میں خریدنا نہیں ہوتا تھا جس مفہوم میں ہم خریدنا بولتے ہیں بلکہ اس کا مفہوم مبادلہ ہوتا تھا۔ اس وجہ سے ”اشتراء“ کا لفظ بدلنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور پھر اس مفہوم سے ترقی کر کے ترجیح دینے کے معنی میں بھی۔ عَهْدِ اللّٰهِ سے مراد کتاب و شریعت ہے اس لیے کہ کتاب و شریعت کی حیثیت اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان معاہدے کی ہوتی ہے۔ یہاں اس عام مفہوم کے اندر ایک خاص اشارہ اس عہد کی طرف بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے آخری بعثت کے باب میں لیا تھا اور جس کو اہل کتاب نے نہ صرف نسیاً منسیا کردیا تھا بلکہ اس کے آثار انہوں نے اپنی کتابوں سے بھی مٹا ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ ”اَیْمَان“ سے مراد وہ عام عہد و پیمان ہیں جن پر اجتماع و تمدنی زندگی کی بنیاد ہوتی ہے اور جن سے معاشرتی زندگی اور معاملات میں اعتماد اور حسن ظن کی فضا بنتی ہے۔ یہود کا اس معاملے میں جو حال تھا وہ اوپر واضح ہوچکا ہے کہ انہوں نے امانتوں میں خیانت کرنے اور اپنے کیے ہوئے عہد و پیمان کی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے کیسے کیسے شرعی حیلے ایجاد کرلیے تھے۔ لَا يُكَلِّمُھُمُ اللّٰهُ وَلَا يَنْظُرُ اِلَيْهِمْ میں فعل کی نفی اس کے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان سے اس معنی میں کلام نہیں کرے گا یا ان کی طرف نظر نہیں کرے گا کلام کرنے اور نظر کرنے کا اصلی مفہوم ہے۔ یہ اسلوب عربی زبان میں عام ہے بلکہ ہر زبان میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنے قول وقرار کو اس طرح خریدنی و فروختنی چیز بنائے ہوئے ہیں اور اپنے دنیوی مفادات پر (جن کی بڑی سے بڑی مقدار بھی اجرِ آخرت کے بالمقابل حقیر ہی ہے) ان کو اس بےدردی سے قربان کرر ہے ہیں ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ اپنے جواہرات کو کوڑیوں کے عوض فروخت کرچکے ہیں اور جو لوگ اللہ کی امانت کے معاملے میں ایسے نااہل ثابت ہوئے ان سے نہ تو اللہ اب بات کرے گا، نہ ان کی طرف نظر کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ اب آخرت میں ایسے شامت زدوں کے لیے دردناک عذاب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہود سے شدید نفرت کا اظہار : الفاظ کے تیور جو لوگ پہچانتے ہیں وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہاں ان کے اندر کتنی نفرت اور کیسی شدید بیزاری چھپی ہوئی ہے لیکن اہل کتاب بالخصوص یہود اپنی ان کارستانیوں کے باعث جن کا اوپر ذکر ہوا اسی کے سزا وار تھے، خاص طور پر اس وجہ سے بھی کہ یہ وہ قوم تھی جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے پیغمبر کے واسطہ سے اپنے خاص کلام و خطاب کے شرف سے نوازا۔ یہ فرعونیوں کے قدموں کے نیچے روندی جارہی تھی تو خدا نے اس پر عنایت کی نظر کی اور اس کو اس ذلت سے نکال کر سیادت و امامت کے تخت پر بٹھایا۔ اس کے تزکیہ کے لیے کتاب نازل فرمائی اور اس کو سنوارنے اور سدھارنے کے لیے اس کے اندر اپنے نبی اور رسول بھیجے لیکن اس قوم نے نہ تو اس خطاب و کلام کی کچھ قدر کی اور نہ اس نظر شفقت و عنایت اور اس تزکیہ وتطہیر کی، جس کا خدا اور اس کے نبیوں نے یہ کچھ اہتمام کیا تو اب اس قوم کا کیا منہ ہے کہ اللہ اس سے بات کرے، یا اس کی طرف نظر کرے یا اس کو پاک کرے۔ اس نے تو اپنے اوپر امید کے سارے دروازے خود بند کرلیے۔ اس آیت میں تزکیہ کی جو نفی ہے اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آخرت تزکیہ کا محل نہیں ہے۔ اس کا محل یہ دنیا ہے۔ جب انہوں نے یہاں اس کا موقع ضائع کردیا تو آخرت میں وہ اس کو حاصل نہ کرسکیں گے۔ دوسرا یہ کہ ان کے جرائم ایسے نہیں ہیں کہ یہ آخرت میں تھوڑی بہت سزا پا کر ان سے پاک ہوجائیں بلکہ یہ جرائم ان کو ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں لے ڈوبنے والے ہیں۔
Top