Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 32
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ
يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ : اے نبی کی بیبیو لَسْتُنَّ : نہیں ہو تم كَاَحَدٍ : کسی ایک کی طرح مِّنَ النِّسَآءِ : عورتوں میں سے اِنِ : اگر اتَّقَيْتُنَّ : تم پرہیزگاری کرو فَلَا تَخْضَعْنَ : تو ملائمت نہ کرو بِالْقَوْلِ : گفتگو میں فَيَطْمَعَ : کہ لالچ کرے الَّذِيْ : وہ جو فِيْ قَلْبِهٖ : اس کے دل میں مَرَضٌ : روگ (کھوٹ) وَّقُلْنَ : اور بات کرو تم قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : اچھی ( معقول)
اے نبی کو بیویو ! تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو۔ تو تم لہجہ میں نرمی نہ اختیار کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے وہ کسی طمع خام میں مبتلا ہوجائے اور بات معروف کے مطابق کہو۔
ینساء النبی لستن کا حد من النساء ان اتقیتین فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض وقلن قولا معروفا (32) ’ خضوع ‘ کے معنی تواضح و خاکساری کے اظہار کے ہیں۔ فلا تخضعن بالقول کے معنی ہوں گے۔ بات کہنے میں نرمی و تواضع نہ اختیار کرو۔ عام حالات میں تو پسندیدہ طریقہ کلام یہی ہے کہ آدمی تواضع کا انداز اختیار کرے لیکن بعض اوقات حالات و مصالح کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اس سے مختلف روش اختیار کی جائے۔ اوپر ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ اس دور میں منافقین و منافقات رات دن اس تگ و دو میں تھے کہ ازواج مطہرات ؓ کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرکے کوئی ایسی بات نکالیں جس کو ایک فتنہ بنا سکیں۔ ان لوگوں کی باتیں ہمدردانہ رنگ میں ہوتی تھیں اس وجہ سے امہات المومنین ؓ بھی ان کا جواب اپنی شرافتِ نفس کے سبب سے نرم انداز ہی میں دیتی تھیں جس سے یہ مفسدین دلیر ہوتے جا رہے تھے اور ان کو یہ توقع ہوچلی تھی کہ وہ بہت جلد اپنی سازش میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان خاص حالات کی بنا پر امہات المومنین ؓ کو اپنا رویہ بدل دینے کی ہدایت ہوئی۔ فرمایا کہ اے نبی کی بیویو، تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو۔ نبی کے ساتھ نسبت کے باعث تمہاری نیکی اور بدی دونوں کی ایک خاص اہمیت ہے۔ تمہاری نیکی دوسروں کے لئے مثال اور نمونہ بنے گی اور تم سے کوئی غلطی صادر ہوگی تو اس کو بھی اصحاب الاغراض حجت بنائیں گے اس وجہ سے تمہارے لئے احتیاط کی روش اولیٰ ہے۔ اگر منافقین تمہارے دلوں میں وسوسہ اندازی کرنے کی کوشش کریں تو بربنائے مروت و شرافت ان کی بات کا جواب نرمی و تواجع سے نہ دو کہ جس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغض و حسد ہے وہ کوئی غلط توقع کر بیٹھے، بلکہ صاف انداز میں اس سے اس طرح بات کہو کہ اگر وہ اپنے دل میں کوئی برا ارادہ لے کر آیا ہے تو اس کو اچھی طرح اندازہ ہوجائے کہ یہاں اس کی دال گلنے والی نہیں ہے۔ ’ لستن کا حد من النساء ان اتقین۔ یہ ازواجِ مطہرات ؓ کے مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جو نبی ﷺ کے ساتھ نسبت کی بنا پر ان کو دنیا کی تمام عورتوں کے مقابل میں حاصل تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان کے ہر قول و فعل کو امت کے لے نمونہ و مثال کی حیثیت حاصل ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کا درجہ امہات المومنین کا قرار دے۔ ان اتقیتن کے الفاظ سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ مرتبہ عالی جو ان کو حاصل ہے یہ تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر وہ تشوی پر قائم رہیں گی تو یہ سرفرازی ان کو حاصل رہے گی، اور اگر یہ شرط وہ پوری نہ کرسکیں گی تو، جیسا کہ اوپر گزرا، ان کی مسئولیت دوسروں کے بالمقابل دگنی ہے۔ ’ فی قلبہ مرض میں مرض سے وہ کینہ و حسد مراد ہے جو اشرار منافقین آنحضرت ﷺ کے خلاف اپنے دلوں میں رکھتے تھے اور جس کے سبب سے رات دن ان کی کوشش یہ تھی کہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو کسی طرح بدنام کریں۔ اسی گروہ کے سرغنہ نے ’ انک ‘ کا فتنہ کھڑا کیا تھا۔ ’ وقلن قولا معروفا ‘ میں ’ قول معروف ‘ سے یہ مراد ہے کہ ایسے لوگوں سے اگر بات کرنے کی نوبت آئے تو بات بالکل صاف و سادہ انداز میں کی جائے جس طرح ایک عام آدمی سے کی جاتی ہے جس میں لگاوٹ کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ یعنی ان کے ہمدردانہ لب و لہجہ سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ کوئی نرم اندازہ نہ اختیار کیا جائے۔ یہ کمینہ لوگ ہیں اس وہ سے یہ شرافت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔
Top