Tadabbur-e-Quran - Faatir : 32
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا١ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ
ثُمَّ : پھر اَوْرَثْنَا : ہم نے وارث بنایا الْكِتٰبَ : کتاب الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفَيْنَا : ہم نے چنا مِنْ : سے۔ کو عِبَادِنَا ۚ : اپنے بندے فَمِنْهُمْ : پس ان سے (کوئی) ظَالِمٌ : ظلم کرنے والا لِّنَفْسِهٖ ۚ : اپنی جان پر وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) مُّقْتَصِدٌ ۚ : میانہ رو وَمِنْهُمْ : اور ان سے (کوئی) سَابِقٌۢ : سبقت لے جانے والا بِالْخَيْرٰتِ : نیکیوں میں بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ : حکم سے اللہ کے ذٰلِكَ : یہ هُوَ : وہ (یہی) الْفَضْلُ : فضل الْكَبِيْرُ : بڑا
پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جن کو اپنے بندوں میں سے منتخب کیا۔ پس ان میں سے کچھ تو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں، کچھ ان میں سے میانہ رو ہیں اور کچھ ان میں سے اللہ کی توفیق سے بھلائیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی سب سے بڑا فضل ہے۔
آیت 32 یہ اس انتظام کا ذکر ہے جو اپنی ہدایت سے خلق کو بہرہ یاب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ’ الذین اصطفینا من عبادتا ‘ سے یہاں بنی اسماعیل یا بالفاظ دیگر ’ امین عرب ‘ من حیث الجماعت مراد ہیں جن کے اندر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ سے اپنا وہ آخری رسول بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا جس کے ذریعے سے خلق کو آخری اور کامل شریعت ملنے والی تھی۔ فرمایا کہ ہم نے اپنے بندوں میں سے ایک دوسرے گروہ کو چنا اور اس کو اپنی کتاب کا وارث بنایا۔ ’ وارث بنایا ‘ کے الفاظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ا سے سے پہلے جوگ کتاب الٰہی کے وارث بنائے گئے تھے (یعنی بنی اسرائیل) ان سے یہ امانت چھینی اور ایک دوسرے گروہ کو جس کو اس شرف کے لئے منتخب کیا، یعنی بنی اسماعیل کو، یہ امانت بخشی۔ امیوں کے اسی شرف کی طرف اشارہ سورة جمعہ کی آیت ھو الذین بعث فی الامین رسولا منھم الایۃ ‘ میں سے اور قرآن نے جگہ جگہ ان کے اس شرف کا حوالہ دے کر ان کو ایمان کی دعوت دی یہ کہ وہ اس کی قدر کریں۔ اگر انہوں نے اس کی قدر نہ کی تو دنیا کی امامت کی جس عزت کے لئے اللہ نے ان کا انتخاب فرمایا ہے وہ اس سے اپنے کو محروم کرلیں گے۔ امیوں کی اس عزت افزائی کا ذکر سورة نساء میں یوں آیا ہے۔ ام یعسدون الناس علی ما اتھم اللہ من فضلہ فقد اتینا ال ابراھیم الکتب والحکمۃ واتینھم ملکا عظیما فمنھم من امن بہ ومنھم من صدعنہ وکفی بجھنم سعیرا۔ (النساء : 54۔ 55) کیا (بنی اسرائیل) اس فضل کی بنا پر لوگوں پر (بنی اسماعیل پر) حسد کر رہے ہیں جو ہم نے ان پر (بنی اسماعیل پر) کیا ؟ اگر وہ حسد کر رہے ہیں تو جتنا حسد کرنا چاہیں کرلیں، ہم نے تو آل ابراہیم (بنی اسماعیل) کو کتاب اور حکمت بھی عطا فرمائی اور ان کو ایک عظیم بادشاہی بھی بخشی تو ان میں سے (بنی اسماعیل میں سے) کچھ تو اس کتاب پر ایمان لائے اور ان میں سے کچھ اس سے اعراض کرنے والے بنے ہوئے ہیں اور دوزخ کی آگ ان کے لئے کافی ہے۔ اس آیت کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں آیت زیر بحث کو سمجھنے کے لئے اس پر ایک نظر ڈال لیجئے۔ جس طرح اس آیت میں بنی اسماعیل من حیث الجماعت مراد ہیں اور ان کو کتاب و حکمت اور ملک عظیم دیے جانے کا ذکر ہے اسی طرح آیت زیر بحث میں ان کی جس برگزیدگی کی طرف اشارہ ہے وہ من حیث الجماعت ان کو حاصلہوئی۔ یہود کو ان کی اس برگزیدگی پر بڑا حسد تھا اور ان کی طرف سے آنحضرت ﷺ کی مخالفت کا ایک بڑا محرک یہی تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ آپ کی نبوت اگر قائم ہوگئی تو اس طرح وہ مذہبی پیشوائی جو اب تک ان کو حاصل رہی ہے ان کے حریفوں یعنی بنی اسماعیل کی طرف منتقل ہوجائے گی۔ قرآن نے جگہ جگہ بنی اسرائیل کے اس کھوٹ سے عربوں کو آگاہ کیا ہے اور ان کی دعوت دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جس شرف سے نوازا اور جس منصب عظیم کے لئے ان کا انتخاب فرمایا ہے اس کی قدر کریں، اس کی مخالفت کرکے اپنے دشمنوں کی مقصد برآری کا سامان نہ کریں۔ اسی طرح یہاں اس برگزیدگی کا حوالہ اس مقصد سے دیا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس فضل وانعام کی قدر کریں، اس سے محروم نہ رہیں۔ ’ فمنھم ظالم لنفسہ، ومنھم مقتصد ومنھم سابق بالخیرات باذن اللہ۔ یہ من حیث الافراد ان کا وہ رویہ بیان ہوا ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے جواب میں اختیار کیا۔ فرمایا کہ ان میں تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہیں یعنی اپنا ایڑی چوٹی کا زور اس کی مخالفت میں صرف کر رہے ہیں۔ نہ خود اس کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں نہ کسی دوسرے ہی کو قبول کرنے دینا چاہتے ہیں۔ سورة نساء کی مذکورہ بالا آیت میں اسی گروہ کا ذکر ومنھم من صد عنہ ‘ کے الفاظ سے ہوا ہے یعنی خود بھی اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی اسے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ امر واضح رہے کہ لفظ ’ صد ‘ رکنے اور روکنے دونوں معنوں میں آتا ہے اسی گروہ کو یہاں ’ ظالم لنفسہ ‘ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یعنی یہ اپنی اس مخالفت سے اپنی ہی جانوں پر طلم ڈھا رہے ہیں کہ اپنے لئے خدا کے سب سے بڑے فضل سے محرومی اور جہنم کے عذاب کا سامان کر رہے ہیں ورنہ جہاں تک خدا کے دین کا تعلق ہے اس کو ان کی مخالفت سے کوئی گزند پہنچنے والا نہیں ہے۔ لفظ ’ ظلم ‘ سے قرآن مجید میں بالعموم شرک کو تعبیر کیا گیا ہے۔ سورة صافات میں ہے۔ ’ ومن ذریتھما محسنوظالم لنفہ مبین (113) (اور ان دونوں (ابراہیم و اسحاق) کی ذریت میں نیکو کار بھی ہیں اور اپنی جانوں پر کھلا ہوا ظلم ڈھانے والے بھی) مفسرین نے عام طور پر الذین اصطفینا من عبادنا ‘ سے امت مسلمہ کو مراد لیا ہے اور پھر اس سے یہ نتیجہ بھی، معلوم نہیں، کس طرح نکال لیا ہے کہ یہ ظالمین بھی بخش دیے جائیں گے۔ ہم نے آیت کا صحیح موقع و محل معین کردیا ہے اس وجہ سے اس خیال کی تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہماری تائید میں حضرت اب عباس ؓ اور مجاہد سے روایات بھی ہیں۔ اگر ضرورت ہو تو تفسیر ابن کثیر یا تفسیر ابن جریر میں دیکھ لیجئے۔ ان بزرگ مفسرین نے ’ ظالم لنفسہ ‘ سے ان لوگوں کو مراد لیا ہے جن کا ذکر سورة واقعہ میں ’ اصحاب المشمۃ ‘ سے ہوا ہے۔ ومنھم مقتصد ‘۔ یہ دوسرے گروہ کا ذکر ہے۔ ’ مقتصد ‘ میانہ رو کو کہتے ہیں۔ یعنی یہ لوگ مخالفت تو نہیں کرتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر اس دعوت حق کی حمایت کا حوصلہ بھی نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا مخالفت نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کو اس دعوت کے حق ہونے کا احساس ہے لیکن یہ احساس اتنا قوی نہیں ہے کہ وہ تمام پیش و عقب سے بالکل بےپروا ہو کر اس کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ قرآن نے ان کے لئے یہ لفظ استعمال کرکے فی الجملہ ان کے متعلق یہ امید دلائی ہے کہ یہ لوگ پہلے گروہ (ظالم لنفسہ) کی طرح اس نعمت سے محروم رہنے والے نہیں ہیں بلکہ دیر سویر ان کا تردد رفع ہوجائے گا اور اللہ نے چاہا تو یہ اس دعوت کے پرزور حامیوں میں بن جائیں گے۔ ’ ومنھم سابق بالخیرات ‘۔ یہ تیسرے گروہ کا ذکر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اندر حق کا شعور اتنا قوی ہوتا ہے کہ ہر دعوت حق ان کو فوراً اپیل کرتی ہے اور ان کی قوت ارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ جب ان کو کوئی چیز اپیل کرلیتی ہے تو اس کی خاطرہ راہ کے تمام عقبات ایک ہی جست میں پار کر جاتے ہیں اور اس کی حمایت یا مدافعت میں کسی بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے بلکہ تمام رکاوٹوں کا پوری دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے نیکی اور بھلائی کے ہر میدان میں گوئے سبقت لے جانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ یہ اشارہ اسلام کے سابقون اولون کی طرف ہے جن کے سرِ خیل سیدنا ابوبکر صدیق ؓ تھے۔ اس گروہ کے ’ سبقت بالخیر ‘ کے ساتھ ’ باذن اللہ ‘ کی قید اس حقیقت کو ظاہر کرتی ہے کہ اس رتبہ بلند کی سرفرازی ہر ایک کا حصہ نہیں ہے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہے یہ رتبہ بخشتا ہے۔ یہ اس سنت الٰہی کا حوالہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں تقدم اور تاخر کے لئے مقرر کر رکھی ہے اور جس کی طرف اس کتاب میں ایک سیزیادہ مقامات میں ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ ذلک ھو الفضل الکبیر ‘۔ یہ اس مرتبہ بلند کا بیان ہے جو ان سابقون بالخیرات کو حاصل ہوگا۔ اور اس میں نہایت بلیغ انداز میں ’ مقتصدین ‘ کے لئے دعوت بھی ہے کہ ابھی موقع ہے کہ وہ بھی اس فضل کبیر میں حصہ دار بننے کے لئے قسمت آزمائی کرسکتے ہیں، تو وہ تذبذب کو چھوڑیں اور ہمت کرکے آگے بڑھیں۔ یہاں ہم ان اشارات پر کفایت کرتے ہیں۔ انشاء اللہ سورة واقعہ کی تفسیر میں اس کے تمام اطراف زیر بحث آئیں گے۔
Top