Tadabbur-e-Quran - Faatir : 34
وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ١ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙ
وَقَالُوا : اور وہ کہیں گے الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَذْهَبَ : دور کردیا عَنَّا : ہم سے الْحَزَنَ ۭ : غم اِنَّ : بیشک رَبَّنَا : ہمارا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا شَكُوْرُۨ : قدر دان
اور وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم کو دور کیا۔ بیشک ہمارا رب بخشنے والا، قبول فرمانے والا ہے۔
آیت۔ 34۔ 35 یعنی اہل جنت جب اللہ تعالیٰ کے تمام وعدوں کی صداقت اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو بےساختہ ان کی زبانوں پر کلمہ شکر جاری ہوجائے گا کہ الحمد اللہ ہم اپنے رب کے جن وعدوں کے لئے جیے اور مرے وہ سب ہماری امیدوں سے کہیں بڑھ کو پورے ہونے۔ اس نے ہمارے سارے غم دور کردیے۔ اب نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا باقی رہا نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ ہمارا رب غفور وشکور ہے۔ اس نے ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمایا اور ہماری ایک ایک نیکی کو شرفِ قبول بخشا۔ اہلِ جنت کے اسی کلمہ شکر کا ذکر دوسرے مقام میں یوں ہوا ہے۔ ’ واخردعوھم ان الحمد للہ رب العلمین، (یونس : 10) (اور ان کا آخری کلمہ یہ ہوگا کہ شکر ہے اللہ رب العالمین کے لئے)۔ ’ دارالمقامۃ ‘ سے مراد ہمیشہ کی اقامت کا گھر ہے یعنی اس سے پہلے تو ہم دنیا میں ایک سرائے فانی میں تھے اور ہم نے اس کو ایک سرائے فانی ہی سمجھا۔ اب ہمارے رب نے ہم کو پنے فضل و رحمت کے ایک ایسے گھر میں اتارا ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ اس میں نہ ہمارے لئے کوئی محنت و مشقت ہے اور نہ کوئی تکان اور افسردگی۔ یہ امر واضح رہے کہ بہتر سے بہتر۔ عیش بھی حاصل ہو تو آدمی اس کے اندر بھی افسردہ ہوجاتا ہے اگر اس کی خواہش کے مطابق اس میں تجدد تنوع نہ ہوتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت ایسی بنائی ہے کہ اس میں ایسا بےغل و غش اور متنوع عیش حاصل ہوگا کہ اہل جنت اس کے اندر اکتاہٹ نہیں محسوس کریں گے۔
Top