Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 52
اَوَ لَمْ یَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَوَ : کیا لَمْ يَعْلَمُوْٓا : وہ نہیں جانتے اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يَبْسُطُ : فراخ کرتا ہے الرِّزْقَ : رزق لِمَنْ : جس کے لیے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے وَيَقْدِرُ ۭ : اور تنگ کردیتا ہے اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيٰتٍ : نشانیاں لِّقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لائے
کیا ان لوگوں کو یہ حقیت معلوم نہیں ہوسکی کہ اللہ ہی ہے جو رزق کو کشادہ کرتا ہے جس کے لئے چاہتا ہے اور تنگ کردیتا ہے جس کے لئے چاہتا ہے۔ بیشک اس کے اندر بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو ایمان لانے والے ہیں
آیت 52 رزق و فضل اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے بعینیہ یہی مضمون سورة روم آیت 37 میں بھی گزر چکا ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ وہاں المریروا کے الفاظ ہیں اور یہاں اولم یعلموا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص آنکھیں رکھنے والا اور عقل سے کام لینے والا ہو تو اس امر میں اس کے لئے کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے کہ رزق و فضل کا تعلق انسان کے علم و اختیار نہیں بلکہ تمام تر اللہ تعالیٰ کی مشیت و حکمت سے ہے۔ وہی جس کو چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے کم دیتا ہے۔ کتنے ہیں جو بغیر سعی و تدبیر کے چاندی کا چمچہ منہ میں لے کر اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور کتنے ہیں جو رات دن دنیا ہی کی فکر میں سر کھپاتے ہیں اور دنیا کمانے کا علم بھی رکھتے ہیں لیکن پاتے اتنا ہی ہیں جتنا اللہ نے ان کی تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ یہ مشاہدہ بھی آئے دن اس دنیا میں ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص آج کروڑ پتی یا ارب پتی بلکہ تخت و تاج کا مالک ہے اور دور سے دن وہ بالکل دیوالیہ یا کسی جیل کی شخص آج کروڑ پتی یا ارب پتی بلکہ تخت و تاج کا مالک ہے اور دوسرے دن وہ بالکل دیوالیہ یا کسی جیل کی شخص آج کروڑ پتی یا ارب پتی بلکہ تخت و تاج کا مالک ہے اور دوسرے دن وہ بالکل دیوالیہ یا کسی جیل کی شخص آج کروڑ پتی یا ارب پتی بلکہ خت و تاج کا مالک ہے اور دوسرے دن وہ بالک دیوالیہ یا کسی جیل کی شخص آج کروڑ پتی یا ارب پتی بلکہ تخت و تاج کا مالک ہے اور دوسرے دن وہ بالکل دیوالیہ یا کسی جیل کی شخص آج کروڑ پتی یا ارب پتی بلکہ تخت و تاج کا مالک ہے اور دوسرے دن وہ بالکل دیوالیہ یا کسی جیل کی کوٹھڑی میں بند ہے۔ ان کھلے ہوئے مشاہدات کے باوجود اگر کوئی شخص اپنے ملا و جاہ کے متعلق انما اوتیتہ علی علم کے گھمنڈ میں مبتلا ہو تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس کی عقل میں کچھ فتور ہے۔ ان فی ذلک لا یت تقوم یومنون یعنی رزق و فضل کے معاملہ میں اس بط و تقدیر کا جو مشاہدہ کرتا ہے اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق بہت سی حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس کائنات کی بادشاہی خدا ہی کے اختیار میں ہے وہی جس کو چاہے بخشتا ہے جس سے چ ہے چھین لیتا ہے کسی اور کی اس میں کوئی حصہ داری نہیں اس وجہ سے بھروسہہ صرف اللہ تعالیٰ ہی پر کرنا چاہئے لیتا ہے۔ کسی اور کی اس میں کوئی حصہ داری نہیں ہے اس وجہ سے بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ ہی پر کرنا چاہئے۔ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام اس کی رحمت اور حکمت کے تحت ہوتا ہے۔ اگر وہ کسی کو اس دنیا میں سے زیادہ دیتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے۔ اگر کم دیتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت ہوتی ہے۔ وہ ایک کو زیداہ دے کر اس کے شکر کو جانچتا ہے اور دوسرے کو کم دے کر اس کے صبر کا امتحان کرتا ہے اور یہ فصلہ قیامت کو ہوگا کہ ان میں سے کون کامیاب رہا اور کون نامراد ہوا۔ یہ کہ یہ دنیا والا امتحان ہے دارالانعام نہیں ہے اس میں ہر شخص کا امحتان ہو رہا ہے اور اس امحتان کے نتائج کے ظہور کے لئے قیامت کا آنا لازمی ہے۔ لقویم یومنون میں فعل میرے نزدیک ارادہ فعل کے مفہوم میں ہے جس کی بہت سی مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو اس دنیا میں گمراہی جو پیش آتی ہے اس میں زیادہ دخل اس بات کو نہیں ہے کہ حقائق مخفی ہیں بلکہ بیشتر یہ ہوتا ہے کہ حقائق واضح ہوت یہیں لیکن انسان ان کو قبول کرنے کے لئے ارادہ نہیں کرتا۔ اس کے متعدد وجوہ ہوتے ہیں جن کی تفصیل اس کے محل میں گزر چکی ہے۔
Top