Tadabbur-e-Quran - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
کہہ دو ، اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا وہ بڑا ہی غفور رحیم ہے
8۔ آگے کا مضمون آیات 63-52 آگے مشرکین کو دعوت دی ہے کہ تم نے خدا سے بدگمان اور مایوس ہو کر شرک و شفاعت کے جو چور دروازے پیدا کئے ہیں، یہ تمہاری نجات کی راہ نہیں کھولیں گے بلکہ تمہاری نامرادی میں اضافہ کا سبب ہوں گے فلاح کی راہ یہ ہے کہ صدق دل کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہو اور اس بہترین کتاب کی پیروی کرو جو اللہ نے تمہاری ہدایت کے لئے اتاری ہے ورنہ یاد رکھو کہ جلد وہ وقت آنے والا ہے کہ تم اپنی نالائقی پر سر پیٹو گے لیکن اس وقت تمہارا پچھتانا تمہارے لئے کچھ سود مند نہیں ہوگا۔ آیات کی تلاوت کیجیے۔ 9۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت آیت 54 مشرکین کے ایک اہم کا ازالہ شرک و شفاعت کے عوامل میں سے ایک بڑا عامل خدا سے مایوسی یا بدگمانی بھی ہے۔ اس مایوسی و بدگمانی کے متعدد پہلو ہیں جن کی وضاحت ان کے محل میں ہوچکی یہ۔ ازآنججملہ یہ بھی ہے کہ مشرک کو خدا کی رحمت و مغفرت پر بھروسہ نہیں ہوتا اس وجہ سے وہ اپنے تصور کے مطابق خدا کے کچھ فرضی مقربین تراشتا ہے اور ان کی عبادت کر کے یہ امید رکھتا ہے کہ وہ خدا کے ہاں اس کے سفارشی بن کر اس کی مغفرت کرا دیں گے اس وہم میں جو لوگ مبتلا ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعے سے یہ پیغام دلوایا کہ ان سے کہو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر گناہ یا شرک کر کے زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے مایوس ہو کر تم دوسروں کا سہارا نہ پکڑو اور اسی سے مغفرت کے طالب بنو، اللہ بڑا ہی غفور رحیم ہے۔ اس کے جو بندے اس کی طرف اخلاص کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں وہ ان کے ہر قسم کے گناہ معاف کردیتا یہ۔ اس آیت کے لب و لہجہ دلیل ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو فی الواقع اس غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ نہ ہر شخص خدا تک رسائی کا اہل ہوتا اور نہ ہر شخص کی بات کو خدا لائق التفات سمجھتا اس غلط فہمی کے سیپ سے وہ دوسرے وسائل و وسائط کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ خدا کے متعلق اس قسم کا خیال اس سے مایوسی اور بدگمانی کے ہم معنی ہے جو کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔
Top