Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کے مال ان کے حوالہ کرو، نہ اپنے برے مال کو ان کے اچھے مال سے بدلو اور نہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس کو ہڑپ کرو، بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے
وَاٰتُوا الْيَــتٰمٰٓى اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيْثَ بِالطَّيِّبِ ۠ وَلَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓى اَمْوَالِكُمْ ۭ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِيْرًا اس آیت کا خطاب یتیموں کے سرپرستوں سے ہے۔ اس آیت میں خطاب یتیموں کے اولیاء اور سرپرستوں سے ہے اور اوپر والی آیت پر اس کا عطف اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں جس بات کا حکم دیا جا رہا ہے یا جس چیز سے روکا جا رہا ہے اس کی بنیاد انہی اصولی حقائق پر ہے جو اوپر مذکور ہوئے۔ خبیث و طیب کا مفہوم : خبیث اور طیب کے الفاظ جس طرح ان اشیا اور ذوات کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو اخلاقی و شرعی نقطہ نظر سے خبیث یا طیب ہوتی ہیں اسی طرح جیسا کہ بقرہ کی آیت 267 کے تحت گزر چکا ہے، ان اشیا کے لیے بھی ان کا استعمال عربی میں معروف ہے جو مادی اعتبار سے ناقص یا عمدہ ہوتی ہیں۔ ’ اکل ‘ ک ساتھ ’ الی ‘ کا صلہ اس بات پر دلیل ہے کہ یہاں ”ضما“ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے۔ یتیموں کے مال کی حفاظت کے لیے ضروری ہدایات : یتیموں کے بعض سرپرست، جن کے سینے خوفِ خدا سے خالی ہوتے ہیں اول تو یتیموں کا سارا حق ہی دبا بیٹھتے ہیں اور اگر دبا نہیں بیٹھتے تو اس میں خورد برد کرنے کی نیت سے، انتظامی سہولت کے نہایت آسمان مواقع پیدا کرلیتے ہیں۔ ان کو ہدایت فرمائی کہ یتیموں کا مال یتیموں کو دو۔ خود ہضم کرنے کی کوشش نہ کرو۔ پھر اس مقصد کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں ان سے واضح لفظوں میں بھی روک دیا کہ نہ اپنا ناقص مال ان کے اچھے مال سے بدلنے کی تدبیریں کرو اور نہ ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر اس کو خورد برد کرنے کی کوشش کرو۔ اگر کوئی سرپرست انتظامی سہولت کے نقطہ نظر سے یتیم کا مال اپنے مال کے ساتھ ملانا چاہے تو اس کی اجازت اگرچہ جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت 220 کے تحت گزر چکی ہے، شریعت نے دی ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس اختلاط و اشتراک سے مقصود اصلاح ہو نہ کہ افساد، بصورت دیگر یتیم کے حق کی حفاظت اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
Top