Tadabbur-e-Quran - An-Nisaa : 74
فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ١ؕ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
فَلْيُقَاتِلْ : سو چاہیے کہ لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَشْرُوْنَ : بیچتے ہیں الْحَيٰوةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا بِالْاٰخِرَةِ : آخرت کے بدلے وَ : اور مَنْ : جو يُّقَاتِلْ : لڑے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ فَيُقْتَلْ : پھر مارا جائے اَوْ : یا يَغْلِبْ : غالب آئے فَسَوْفَ : عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا عَظِيْمًا : بڑا اجر
پس چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کے لیے وہ لوگ اٹھیں جو دنیا کی زندگی آخرت کے لیے تج چکے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جنگ کرے گا تو خواہ مارا جائے یا غالب ہو ہم اس کو اجر عظیم دیں گے
فَلْيُقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يَشْرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا بِالْاٰخِرَةِ ۭوَمَنْ يُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيُقْتَلْ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًا۔ الذین، یہاں مفعول کے محل میں نہیں بلکہ فاعل کی حیثیت میں ہے اور شری یشری یہاں بیچنے کے معنی میں ہے۔ سورة یوسف میں ہے وشروہ بثمن بخس دراہم معدودہ (اور انہوں نے یوسف کو نہایت حقیر قیمت پر بیچ دیا، گنتی کے چند درہموں پر، اور وہ اس کی قدر سے نا آشنا تھے)۔ دنیا کی زندگی کو آخرت سے ییچتے ہیں یعنی دنیا کی زندگی پر آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ منافقین تو صرف اس جنگ کے غازی بننا چاہتے ہیں جس میں کسیر بھی نہ پھوٹے اور مال غنیمت بھی بھرپور ہاتھ آئے۔ خدا کے دین کو ایسے نام نہاد غازیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا کی راہ میں جہاد کے لیے وہ اٹھیں جو آخرت کے لیے اپنی دنیا تج چکے ہوں جو لوگ دنیا کو تج کر صرف آخرت کی کامیابی کے لیے جہاد کریں گے وہ مارے جائیں یا فتحمند ہوں، دونوں ہی صورتوں میں ان کے لیے اجر عطیم ہے۔ رہے یہ لوگ جو صرف اس وقت تک کے لیے مجنوں بنے ہیں جب تک لیلی کی طرف سے ان کو دودھ کا پیالہ ملتا رہے، خون جگر کا مطالبہ نہ ہو، تو ایسے مجنوں یہاں درکار نہیں ہیں۔
Top