Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور اس کو اس نے ایک پائیدار روایت کی حیثیت سے چھوڑا اپنے اخلاف میں تاکہ لوگ اسی کی طرف رجوع کریں۔
وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ لعلھم یرجعون 28 ضمیر منصوب کا مرجع وہی اعلان برأت و ہجرت ہے جس کا ذکر اوپر گزرا۔ اس نوع کی ضمیریں پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہیں۔ اس اعلان برأت کی روایت اخلاف میں باق رہی کلمۃ باقیۃ سے مراد پائیدار اور باقی رہنے والی روایت (Tradition) ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے قول و عمل اور اپنی تعلیم و تذکیر سے اپنے اس اعلان برأت ہجرت کو اپنی ذریت میں ایک مستحکم روایت کی حیثیت دے دی۔ اسلاف، اخلاف کو یہ روایت منتقلک رنے اور اس کو زندہ رکھنے کی برابر وصیت اور تاکید کرتے رہے۔ ذریت ابراہیم کی ایک شاخ یعنی اسرائیل میں اس کا چرچا ان کے صحیفوں اور ان کے اندر مبعوث ہونے والے انبیاء کی تعلیم و تذکیر سے قائم رہا۔ دوسری شاخ یعنی بنی اسماعیل میں چونکہ انبیاء نہیں مبعوث ہوئے اس وجہ سے اس کا چرچا کچھ مدت بعد کمزور پڑگیا تاہم اس کے اندر بھی ایک گروہ برابر ان لوگوں کا باقی رہا جو حضرت ابراہیم ؑ کے دین حنیفی کے پیرو، ان کی دعوت توحید کے حامل اور ان کی شرک بیزاری کی روایات کے امین رہے۔ لعلھم یرجعون یعنی یہ روایت انہوں نے اپنی ذریت میں اس لئے چھوڑی کہ ان کے لئے نشان راہ کا کام دیتی رہے۔ جب کبھی شیطان ان کو بھٹکانے لگے یا وہ بھٹک جائیں تو اس نشان کو دیکھ کر پھر صراط مستقیم کی طرف پلٹ سکیں۔
Top