Tadabbur-e-Quran - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
کہ اللہ تمہارے تمام اگلے اور پچھلے گناہوں کو بخشے، تم پر اپنی نعمت تمام کرے، تمہارے لئے ایک بالکل سیدھی راہ کھول دے
لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک ومات خرویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراط مستقیماً وینصرک اللہ نصراً عزیزا (3-2) اس فتح مبین کے چند نتائج ’ ل ‘ یہاں غایت و نہایت کے مفہوم میں ہے یعنی اللہ نے یہ فتح مبین جو عنایت فرمائی ہے یہ تمہید ہے جو منتہی ہوگی مندرجہ ذیل باتوں پر جن سے اللہ تعالیٰ تمہیں سرفراز فرمانے والا ہے۔ ایک یہ کہ اب وہ وقت قریب ہے کہ تم اپنے مشن کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو جائو گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف کر کے اپنی رحمت سے نوازے گا۔ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنی نعمت تمام کرنے والا ہے۔ تیسری یہ کہ ہدایت کی صحیح راہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کھول دے گا۔ چوتھی یہ کہ تمہیں اللہ تعالیٰ ایسا غلبہ عطا فرمائے گا جس کو چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ چاروں باتیں یہاں اجمال کے ساتھ مذکور ہوئی ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضرورت ہے کہ قرآن کے نظائر کی روشنی میں ان کی وضاحت کی جائے۔ لیغفرلک اللہ ماتقدمن ذنبک وماتاخر یہ نبی ﷺ کو اس بات کی بشارت دی گئی ہے کہ اس فتح مبین کے بعد فریضہ رسالت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کا وقت آپ کے لئے قریب آگیا ہے۔ یہ مضمون قرآن میں جگہ جگہ مختلف اسلوبوں سے آیا ہے۔ مثلاً سورة نصر میں فرمایا ہے۔ اذا جآء نصرا اللہ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا فسبح بحمد ربک استغفرہ ط انہ کان تواباً (3-1) جب اللہ کی مدد اور فتح ظاہر ہوجائے اور تم دیکھو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بیشک اللہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا ہے۔ اس سورة میں فتح و غلبہ کی بشارت کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ اس کے بعد فریضہ رسالت کی ذمہ داریوں سے بکدوش ہونے کا وقت آپ کے لئے قریب آجائے گا لیکن صاف الفاظ میں اس کی بشارت دینے کی بجائے اس کے لئے تیاری کرنے کی ہدایت فرمائی گئی کہ تسبیح، نماز اور استغفار سے اس کے لئے تیاری کرو۔ آیت زیر نظر میں یہی مضمون مقع و محل کے تقاضے سے نہایت واضح بشارت کے اسلوب میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ فتح مبین جو تمہیں حاصل ہوئی ہے اس کے بعد اب وہ وقت قریب ہے کہ تمہارے رب نے جو ذمہ داری تم پر ڈالی تھی اس سے فارغ فرمائے گا اور نہایت سرخروئی و سرفرازی کے ساتھ اس طرح فارغ فرمائے گا کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دے گا۔ نبی ﷺ کے لئے سب سے بڑی بشارت کوئی ہو سکتی تھی تو لاریب یہی ہو سکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس عظیم مشن پر مامور فرمایا تھا اس سے آپ کو اس طرح فارغ فرمائے کہ اس کے متعلق کوئی بھی چھوٹی یا بڑی مسئولیت آپ پر باقی نہ رہے بلکہ یہ اطمینان ہوجائے کہ آپ نے یہ فریضہ ٹھیک ٹھیک اپنے رب کی مرضی کے مطابق انجام دے دیا۔ اس ٹکڑے میں آپ کو خوشنودی کا یہی پروا نہ عطا ہوا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے بڑا پروانہ کوئی اور آپ کے لئے نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی کی شکر گزاری نے آخری دور میں جب آپ کی عبادت کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ کردیا تو لوگ آپ سے سوال کرتے کہ یا رسول اللہ، آپ کے تو تمام اگلے پچھلے گناہ بخشے جا چکے ہیں تو آپ عبادت میں اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ آپ اس کا جواب دیتے کہ افلا اکون عبدالشکوراً (کیا میں اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟) انبیاء (علیہم السلام) سے کس طرح کے گناہ صادر ہوتے ہیں یہاں نبی ﷺ کی طرف جس ذنب کی نسبت کی گئی ہے اس سے متعلق یہ وضاحت اس کتاب میں جگہ جگہ ہم کرتے آ رہے ہیں حضرات انبیاء (علیہم السلام) سے اتباع ہوا کی نوعیت کے گناہ تو کبھی صادر نہیں ہوئے لیکن اقامت دین کی جدوجہد میں نیک دوامی کے تحت، کبھی کبھی ان سے بھی ایسی باتیں صادر ہوگئی ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے ان کی گرفت فرمائی ہے۔ مثلاً نبی ﷺ کے پاس منافقین آتے اور کوئی بہانہ پیدا کر کے یہ چاہتے کہ ان کو جہاد میں شرکت سے رخصت دی جائے۔ آپ کو علم ہوتا کہ یہ لوگ محض بہانہ سازی کر رہے ہیں لیکن کریم النفسی کے سبب سے آپ ان کو رخصت دے دیتے کہ ان کا فضیحتانہ ہو۔ نبی ﷺ کی یہ نرمی اگرچہ آپ کی کریم النفسی کا نتیجہ تھی، اس میں اتباع ہوا کا کوئی شائبہ نہیں تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر آپ کی گرفت فرمائی اس لئے کہ نبی ہر معاملے میں حق وعدل کی کسوٹی ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ شریفانہ سلوک کرنے کے معاملے میں بھی اس حد سے متجاوز نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے شریفانہ سلوک کے لئے ٹھہرا دی ہے۔ اسی طرح نبی ﷺ کبھی کبھی اپنی قوم کے سرداروں کی دلداری، اس خیال سے، زیادہ فرماتے کہ اگر یہ لوگ ایمان لائیں گے تو یہ دعوت کی تقویت و ترقی کا ذریعہ بنیں گے۔ ہر چیز بجائے خود کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ دین کی مصلحت کا ایک نہایت اہم تقاضا ہے لیکن اگر یہ اتنی زیادہ ہوجائے کہ اس سے اصلی حق داروں کے حق سے غفلت ہونے لگے یا نا اہلوں کی رعونت میں اس سے اضافہ ہونے لگے تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو اس سے روک دیتا ہے۔ سورة عیس میں ایک نابیناکا جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ اسی نوعیت کا ہے۔ اسی طرح کے واقعات دوسرے انبیاء کی زندگیوں میں بھی پیش آئے جن کی وضاحت ہم نے اپنی اس کتاب میں ان کے محل میں کی ہے۔ آیت زیر بحث میں بھی نبی ﷺ کی طرف جس گناہ کی نسبت کی گئی ہے اس کی نوعیت یہی ہے۔ اس طرح کی تمام باتوں کے متعلق آپ کو بشارت دے دی گئی کہ یہ ساری چیزیں آپ کو بخش دی جائیں گی۔ اگلے اور پچھلے کے الفاظ اصلاً تو احاطہ کے مفہوم پر دلیل ہیں۔ لیکن ان سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس بشارت سے پہلے کی غلطیاں بھی معاف اور اس کے بعد بھی اگر کوئی غلطی ہوئی تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہے۔ اس کے لئے کسی نئی بشارت کی ضرورت نہیں ہے۔ ویم نعمتہ علیک یہ نعمت دین کے اتمام اور اس کی تکمیل کی بشارت ہے۔ چناچہ حجتہ الوداع کے موقع پر جب اس نعمت کی تکمیل ہوگئی تو یہ اعلان کردیا گیا کہ الیوم اکملت لکم دینکم والمت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا (المائدۃ 3) (اب میں نے تمہاری رہنمائی کے لئے تمہارے دین کو کامل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کیا۔) تکمیل دین کی نعمت کا ثمرہ ویھدیک صراطاً مستقیماً یہ تکمیل دین کی نعمت کا ثمرہ بیان ہوا ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہیں اس صراط مستقیم کی ہدایت بخشے گا، جس سے شیطان نے لوگوں کو ہٹا دیا تھا یہ امر یہاں واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے خلق کی ہدایت کے لئے جو دین نازل فرمایا تھا یہود اور نصاریٰ نے بھی اس کو ضائع کردیا تھا اور اہل عرب نے بھی حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل (علیہا السلام) کے تعمیر کردہ مرکز توحید کو ایک بت خانہ کی شکل میں تبدیل کر کے، اصل نشان راہ گم کردیا تھا۔ جس سے خدا تک پہنچانے والی سیدھی راہ بالکل ناپید ہوچکی تھی۔ یہ راہ خلق کے لئے از سر نو اس وقت باز ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کے ذریعہ سے اپنے دین کی تجدید و تکمیل فرمائی ہے اور حضرت ابراہیم ؑ کا تعمیر کردہ مینارہ توحید کفر کے نرغہ سے نکل کر اپنے اصل ابراہیمی جمال و شان میں نمایاں ہا ہے۔ اس ٹکڑے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اب دین بھی نکھر کر سامنے آجائے گا اور وہ مرکز نور بھی بےنقاب ہوجائے گا جو ہدایت کی اصل شاہراہ کی طرف رہنمائی کے لئے تعمیر ہوا تھا۔ یہاں یہ بشارت نبی ﷺ کو خطاب کر کے دی گئی ہے۔ یہی بشارت اسی سورة کی آیت 20 میں تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے دی گئی ہے۔ وہاں انشاء اللہ ہم اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔ نصر عزیز کا صحیح مفہوم وینصرک اللہ نصراً عزیزاً نصر عزیز سے مراد کفر کے مقابل میں ایسی فتح و نصرت ہے جس کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔ اس طرح کی نصرت ظاہر ہے کہ اسی شکل میں آپ کو حاصل ہو سکتی ھی جب کفر کا زور بالکل ہی ٹوٹ جائے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ جب قریش کا زور بالکل ختم ہوجائے اور بیت اللہ مسلمانوں کی تحویل میں آجائے اب تک مسلمانوں کو قریش کے مقابل میں جو کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں وہ بھی اہم تھیں لیکن ایسی نہیں تھیں کہ ان کو چیلنج نہ کیا جاسکے۔ قریش جب تک مکہ پر مسلط تھے اس وقت تک وہ بہرحال ایک طاقت تھے لیکن واقعہ حدیبیہ نے ان کی یہ طاقت متزلزل کردی اور وہ وقت اب دور نہیں رہ گیا تھا کہ ان کے اقتدار کی یہ کہنہ عمارت ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوجائے۔ یہ اسی نصر عزیز کی بشارت دی گئی ہے۔ عزیز کے معنی غالب و مقتدر کے ساتھ منیع کے بھی ہیں یعنی جس تک کسی کی پہنچ نہ ہو سکے۔ ترتیب بیان کی ایک بلاغت یہاں ان بشارتوں کے ظہور کی ترتیب میں جو بلاغت ہے وہ بھی قابل توجہ ہے کہ جو چیز سب سے پہلے ظہور میں آنے والی ہے اس کا ذکر سب سے آخر میں ہوا اور جو چیز سب کا خلاصہ ہے اور سب سے آخر میں ظاہر ہوگی اس کا ذکر سب سے پہلے ہوا۔ یہ ترتیب نزول ہے یعنی بیان مطالب میں نیچے سے اپور چڑھنے کی نہیں بلکہ اوپر سے نیچے اترنے کی ترتیب اختیار فرمائی گئی ہے اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ یہ موقع آنحضرت ﷺ کو بشارت دینے کا تھا فتح مکہ کی بشارت بھی اگرچہ اہم بشارت تھی لیکن اس سے بھی بڑی بلکہ سب سے بڑی بشارت آپ کے لئے یہ تھی کہ وہ انعام اخروی آپ کے سامنے رکھ دیا جائے جو آپ کو ملنے والا ہے اور جس کے ملنے میں اب زیاہ دیر نہیں رہ گئی ہے۔
Top