بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Fath : 1
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِیْنًاۙ
اِنَّا فَتَحْنَا : بیشک ہم نے فتح دی لَكَ : آپ کو فَتْحًا : فتح مُّبِيْنًا : کھلی
بیشک ہم نے تم کو ایک کھلی ہوئی فتح عطا فرمائی
1 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت انا فتحنا لک فتحاً مبینا 1 معاہدہ مدعیہ کے فتح مبین ہونے کے چند پہلو فتح مبین سے یہاں مراد معاہدہ حدیبیہ ہے، اس کے سوا کسی اور فتح کو مراد لنیے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اس کو فتح مبین قرار دینے کے متعدد پہلو بالکل واضح ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ یہ پہلا موقع ہے کہ قریش نے علانیہ بیت اللہ پر مسلمانوں کا حق تسلیم کیا اور یہ تسلیم کرنا بطور احسان نہیں بلکہ مسلمانوں سے دب کر ہوا۔ آگے آیت 24 سے واضح ہوگا کہ اگر معاہدہ نہ ہوتا اور جنگ چھڑتی تو مسلمانوں کی فتح یقینی تھی۔ قریش نے صورت حال کا اچھی طرح انداز ہکر لیا تھا اس وجہ سے وہ معاہدہ کے دل سے خواہشمند تھے۔ البتہ اپنی ناک ذرا اونچی رکھنے کے لئے یہ چاہتے تھے کہ مسلمان اسی سال عمرہ کرنے پر اصرار نہ کریں بلکہ آئندہ سال آئیں۔ مسلمانوں کو اس بات پر راضی کرنے کے لئے انہوں نے بہت بڑی رشوت بھی دی کہ تین دن کے لئے وہ شہر بالکل خالی کردیں گے تاکہ کسی تصادم کا کوئی اندیشہ نہ رہے۔ قریش کی طرف سے یہ پیش کش کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ دوسرا یہ کہ قریش نے اس معاہدے کی رو سے مسلمانوں کو اپنے برابر کی ایک حریف قوت عرب میں تسلیم کرلیا۔ ان کی نظر میں مسلمانوں کی حیثیت اب باغیوں اور غداروں کی نہیں رہی تھی، جیسا کہ وہ علانیہ اب تک کہتے رہے تھے، بلکہ مساوی درجے کی ایک سیاسی قوت کی ہوگئی چناچہ انہوں نے عالنیہ ان کے لئے یہ حق تسلیم کرلیا کہ عرب کے جو قبائل ان کے حلیف بننا چاہیں وہ ان کو اپنا حلیف بنا سکتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ قریش نے مسلمانوں کی جنگی صلاحیت کا لوہا بھی اس حد تک مان لیا کہ خود اصرار کر کے معاہدے میں دس سال کے لئے جنگ بندی کی شرط رکھوائی۔ چوتھا یہ کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر اور مسلمانوں کو جنگ کی اجازت جو نہیں دی تو اس کی وجہ مسلمانوں کی کوئی کمزوری نہیں تھی بلکہ صرف یہ تھی کہ مکہ میں بہت سے ظاہر اور مخفی مسلمان تھے جو وہاں سے ابھی ہجرت نہیں کرسکے تھے۔ اندیشہ تھا کہ جنگ کی صورت میں ان کو خود مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچ جائے گا۔ غرض اس کے ایک فتح مبین ہونے کے گونگاوں پہلو واضح تھے جو مسلمانوں سے مخفی نہیں ہو سکتے تھے لیکن قریش نے اپنی حمیت جاہلیت کا مظاہرہ کچھ اس طرح کیا اور بعض واقعات نہایت اشتعال انگیز مثلاً ابوجندل کا واقعہ … اس دوران میں ایسے پیش آگئے کہ مسلمان کے اندر عام احساس یہ پیدا ہوگیا کہ یہ معاہدہ دب کر کیا جا رہا ہے۔ جذبات کے ہیجان میں لوگ اس کے ہر پہلو پر غور کر کے یہ اندازہ نہ لگا سکے کہ اس معاہدے کی رو سے انہوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ اس سورة نے جب اصل حقائق کی طرف توجہ دلائی تب لوگوں کو محسوس ہوا کہ فی الواقع انہوں نے معاہدے کی مضمرات سمجھنے میں غلطی کی اور جب اس کے نتائج سامنے آئے تو ہر شخص نے کھلی آنکھ سے دیکھ لیا کہ فی الواقع یہی معاہدہ فتح مکہ کی تمہید ثابت ہوا۔
Top