بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tadabbur-e-Quran - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، اللہ اور رسول کے سامنے اپنی رائے مقدم نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
-1 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت یا یھا الذین امنوا لاتقدموا بین یدی اللہ و رسولہ واتقوا اللہ ان اللہ سمیع علیم 1 وہ حالات جن میں یہ سورة نازل ہوئی خطاب اگرچہ عام مسلمانوں سے ہے لیکن جن لوگوں کا رویہ اس سورة میں زیر حبث آیا ہے وہ جیسا کہ آگے کی آیات سے بالتدریج واضح ہوتا جائے گا، اطراف مدینہ کے بدوی قبائل کے وہ لوگ ہیں جو اسلام کی ابھرتی ہوئی طاقت سے متاثر ہو کر مسلمانوں میں شامل تو ہوگئے تھے لیکن ابھی ایمان ان کے دلوں میں اچھی طرح رچا بسا نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے اول تو یہ تھی کہ یہ لوگ اسلام کو سمجھ کر نہیں بلکہ اس سے مرعوب ہو کر اس میں داخل ہوئے۔ ثانیاً مرکز سے بےتعلق رہنے کے سبب سے ان کی تربیت بھی اچھی طرح نہیں ہوئی تھی۔ ان کے اندر ایک غلط قسم کا پندرا بھی تھا کہ انہوں نے کسی جنگ کے بغیر نبی ﷺ کی اطاعت کرلی جو آپ پر ان کا ایک احسان ہے۔ اس پندار کا اثر یہ تھا کہ ان کے سردار جب مدینہ آتے تو آنحضرت ﷺ سے اس انداز سے بات کرتے گویا وہ اسلام کے بڑے مربی و محسن ہیں۔ بغیر اس کے کہ نبی ﷺ کسی معاملے میں ان کی رائے دریافتک ریں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی رائیں پیش کرتے اور مشورے دینے کی کوشش کرتے بات کرتے ہوئے حضور کی آواز پر اپنی آواز، تفوق کے اظہار کے لئے بلند رکھتے جب کبھی آتے تو ان کی خواہش یہ ہوتی کہ حضور بلاتاخیر سارے کام چھوڑ کر ان سے ملاقات کریں اور اگر ذرا تاخیر ہوجاتی تو بےدرنگ آپ کو ججروں کے باہر سے، اس طرح آواز دینا شروع کردیتے جس طرح ایک عام آدمی کو آواز دی جاتی ہے۔ آپس میں ان کے درمیان جو جاہلی رقابتیں زمانہ جاہلیت سے چلی آرہی تھیں، ان میں ہر ایک آنحضرت ﷺ کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کرتا اور اس غرض کے لئے وہ اپنے حریفوں سے متعلق بعض اوقات ایسی خبریں بھی آنحضرت ﷺ کو پہنچاتے جو غلط فہمی پیدا کرنے والی ہوتیں۔ ان کی بنا پر مدینہ کے مسلمان اگر کوئی اقدام کو گزرتے تو یہ چیز مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کے لئے نہایت مضر ہوتی۔ یہ حالات تھے جن میں یہ سورة نازل ہوئی۔ اس میں رویہ تو زیر بحث، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ایک مخصوص گروہ ہی کا ہے لیکن قرآن نے خطاب عام ہی رکھا ہے تاکہ اس کا زیادہ فضیحتابھی نہ ہو اور وہ رخنے بند بھی ہوجائیں جن سے شیطان کو معاشرہ کے اندر فتنہ انگیزی کی راہ مل سکتی ہے۔۔ ممانعت رسول کے سامنے رائے پیش کرنے نہیں بلکہ رائے پیش کرنے میں پہل کرنے کی ہے یہ امر و اضح رہے کہ یہاں ممانعت اللہ کے رسول کے سامنے اپنی رائے پیش کرنے میں پہل کرنے یا اپنی رائے کو اللہ اور رسول کے حکم پر مقدم کرنے کی ہے نہ کہ رسول کے سامنے مجرد اپنی کوئی رائے پیش کرنے کی۔ نبی ﷺ امور مصلحت میں صحابہ سے ان کی رائیں معلوم بھی فرماتے اور صحابہ اپنی رائے پیش بھی کرتے۔ اسی طرح صحابہ بعض اوقات عام امور مصلحت میں نبی ﷺ کے سامنے یہ بھی عرض کرتے کہ اگر حضور ﷺ کا فلاں اقدام وحی الٰہی پر مبنی نہ ہو تو اس کی جگہ فلاں تدبیر زیادہ قرین مصلحت رہے گی اور حضور ﷺ بعض اوقات ان کی رائیں قبول بھی فرما لیتے۔ اس آیت میں اس طرح کی باتوں کی نہی نہیں ہے۔ حضور نے خود اپنے طرز عمل سے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور سب سے زیادہ لوگوں سے مشورہ لینے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی، جیسا کہ آیت وشاورھم فی الامر آل عمران 159) سے واضح ہے، آپ کو لوگوں سے مشورہ کرتے رہنے کی ہدایت فرمائی گئی تھی۔ یہاں ممانعت اسی بات کی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر شا ارہ کیا کہ کوئی شخص اللہ کے رسول کو ایک عام آدمی یا مجرد ایک لیڈر سمجھ کر اور اپنے آپ کو ان سے زیادہ مدبر خیال کر کے، بغیر اس کے کہ حضور ﷺ اس سے کسی معاملہ میں اس کی رائے دریافتک ریں، حضور کو اپنی رائے سے متاثر کرنے اور اپنی رائے کو حضور کی بات پر مقدم کرنے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرے تو اس کا رویہ دلیل ہے کہ وہ رسول کے اصلی مرتبہ و مقام سیب الکل بیخبر ہے۔ اللہ کا رسول اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہوتا ہے اور وہ جو کچھ کہتا یا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت کرتا یا کہتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنے کی جسارت کرتا ہے تو دوسرے لفظوں میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اپنی رائے کو اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر مقدم کرنا چاہتا ہے درآنحالیکہ یہ چیز اس کے تمام ایمان و عمل کو ڈھا دینے والی ہے اگر چ ہ اس کو اس کا شعور نہ ہ۔ اللہ اور رسول کا معاملہ الگ الگ نہیں ہے بین ید اللہ ورسولہ کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ و رسول کا معاملہ الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کا رسول اللہ کا سفیر و نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کو بن پوچھے مشورہ دینا خود اللہ تعالیٰ کو مشورہ دینا ہے، اس کی بات پر ابنی بات کو مقدم کرنا اللہ کی بات پر اپنی بات کو مقدم کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر اپنے کو مدبر سمجھنا خود خدائے علیم و حکیم سے بڑھ کر اپنے مدبر و حکیم سمجھنا ہے۔ یہ آدمی کے اس رویہ کے لازمی نتائج ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کو اس کی بلاوت کے سبب سے ان نتائج کا احساس نہ ہو لیکن ان کے لازمی نتائج ہونے سے انکار نامکن ہے۔ واتقوا اللہ ان اللہ سمیع علیم یہ ان لوگوں کو تنبیہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اللہ اور رسول سے زیادہ دانشمند اور مدبر ہونے کے خبط میں مبتلا نہ ہو۔ اللہ سمیع وعلیم ہے وہ تمہاری ساری باتوں کو سن بھی رہا ہے اور ان کے پیچھے جو محرکات کام کر رہے ہیں ان سے بھی اچھی طرقف واقف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے تو اس کا مکافات عمل کا قانون لازماً ظہور میں آئے گا۔ اس قانون کا ذکر آگے والی آیت میں آ رہا ہے۔ موجودہ زمانے کے مدعیان اصلاح کی کج فہمی اس آیت میں ہمارے زمانے کے ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو اسلام کی خدمت کے دعوے کے ساتھ اس کے اقدار کو مسخ اور اس کے قوانین کی تحریف کر رہے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ اللہ اور رسول نے جس شکل میں اسلام دیا ہے اس شکل میں وہ اس دور میں نہیں چل سکتا۔ ضروری ہے کہ زمانہ کے تقاضوں کے مطابق اس کی اصلاح کی جائے۔ چناچہ وہ شریعت کے احکام میں اپنی رائے کے مطابق ترمیم کر رہے ہیں۔ بس یہ فرق ہے کہ آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو پہلے ہی سے سبقت کر کے چاہتے تھے کہ اللہ و رسول کے آگے اپنے مشورے پیش کردیں، اس زمانے کے مدعیان اسلام کو یہ موقع نہ مل سکا اس وجہ سے وہ اب ان غلطیوں کی اصلاح کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک اللہ و رسول سے العیاذ باللہ، دین کے معاملے میں ہوگئی ہیں۔
Top