Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 15
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَكُمْ كَثِیْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ١ؕ۬ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب قَدْ جَآءَكُمْ : یقیناً تمہارے پاس آگئے رَسُوْلُنَا : ہمارے رسول يُبَيِّنُ : وہ ظاہر کرتے ہیں لَكُمْ : تمہارے لیے كَثِيْرًا مِّمَّا : بہت سی باتیں جو كُنْتُمْ : تم تھے تُخْفُوْنَ : چھپاتے مِنَ الْكِتٰبِ : کتاب سے وَيَعْفُوْا : اور وہ درگزر کرتا ہے عَنْ كَثِيْرٍ : بہت امور سے قَدْ جَآءَكُمْ : تحقیق تمہارے پاس آگیا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے نُوْرٌ : نور وَّ : اور كِتٰبٌ : کتاب مُّبِيْنٌ : روشن
اے اہل کتاب، تمہارے پاس ہمارا رسول وہ بہت سی باتیں ظاہر کرتا ہوا آگیا ہے جو تم کتاب کی چھپاتے رہو ہو اور وہ بہت سی باتیں نظر انداز بھی کر رہا ہے۔ اب تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی اور ایک واضح کرنے والی کتاب آگئی
آگے کا مضمون۔ آیات 15۔ 19:۔ یہود اور نصاریٰ کے لیے نجات کی راہ : آگے یہود اور نصاریٰ دونوں کو بانداز تنبیہ توجہ دلائی ہے کہ تم اللہ کے عہد کو توڑ کر اور اس کی کتابیں ضائع کرکے جس تاریکی اور جس مذہبی جنگ و جدل میں پھنس گئے ہو اس سے نکالنے اور سلامتی کی راہ پر لانے کے لیے اللہ نے تمہیں پھر روشنی دکھائی ہے اور ایک واضح کتاب بھیجی ہے۔ اب اس کتاب اور اس رسول کے بعد تمہارے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ اگر اس اتمامِ حجت کے بعد بھی تم اسی تاریکی میں پڑے رہے تو یاد رکھو، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کی گرفت سے باہر کوئی نہیں نکل سکتا۔ آیات کی تلاوت فرمائیے : تفسیر آیات 15 تا 16: لفظ خفاء تحریف کی ایک جامع تعبیر ہے : يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۔ تحریف خواہ تبدیلی الفاظ کی نوعیت کی ہو یا تبدیلی مدعنی کی نوعیت کی، اس کا اصل مقصد حقیقت پر پردہ ڈالنا اور خلق کی کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہوتا ہے اس وجہ سے قرآن نے اس کے لیے جامع لفظ اخفاء کا استعمال کیا ہے جس کے تحت ان کی لفظی و معنوی تحریفیں بھی آگئیں اور ان کی کتابوں کی وہ آیتیں بھی جن کو اہل کتاب کے علماء اس اندیشے سے عام لوگوں سے چھپاتے تھے کہ ان کے خلافِ شریعت اقدامات کی پردہ دری نہ ہو یا ان کی بنا پر آخری بعثت کے باب میں ان پر کوئی حجت نہ قائم ہوسکے۔ فرمایا کہ یہ رسول تمہاری بہت سی تحریفات بےنقاب کررہا ہے اور ایسی بھی بہت سی ہیں جن کو نظر انداز کر رہا ہے اس لیے کہ مقصود اصل حقیقت کو ظاہر کرنا اور شریعت الٰہی کی تجدید و تکمیل ہے نہ تمہاری تذلیل و تفضیح " نور " اور " کتاب مبین " سے مراد : قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ۔ نور سے مراد قرآن مجید ہے اور کتاب مبین کا لفظ بطور تفسیر ہے۔ قرآن مجید حکمت اور شریعت دونوں کا مجموعہ ہے۔ وہ ذہنی تاریکیوں سے بھی نکالتا ہے اور زندگی کے لیے عمل کی صحیح شاہراہ بھی متعین کرتا ہے اس وجہ سے وہ نور بھی ہے اور کتاب مبین بھی۔ اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ نے جو روشنی عطا فرمائی تھی اس کو ضائع کر کے وہ پھر تاریکیوں میں گھر گئے تھے، اصل حقیقت گم تھی اور شاہراہ ناپید۔ اس وجہ سے ان کے درمیان جنگ و جدل کی وہ آگ بھڑک اٹھی تھی جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ ہدایت کے لیے طلب و جستجو شرط ہے : يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ۔۔۔ الایۃ۔ یہ اس کتاب کا مقصد بیان ہوا ہے کہ اللہ نے یہ کتاب اس لیے اتاری ہے کہ تم اس پر ایمان لائے تو یہ تم کو اس جنگ و جدل سے نجات دے کر امن و سلامتی کی راہ پر، تاریکی سے نکال کر روشنی میں، کج روی اور ضلالت کی وادیوں سے نکال کر خدا کی صراط مستقیم پر لائے گی، بشرطیکہ تمہارے اندر خدا کی خوشنودی کی طلب ہو اور تم اپنے تعصبات کی پٹیاں اپنی آنکھوں سے کھول کر اس روشنی کو دیکھو اور اس کی قدر کرو۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جن کے اندر رضائے الٰہی کی جستجو نہ ہو بلکہ وہ اپنی خواہشات کے پرستار بنے رہیں، ان کے لیے توفیق کا دروازہ نہیں کھلتا۔ باذنہ کے لفظ سے اسی سنت اللہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ یعنی یہ سعادت خدا کے اذن سے حاصل ہوتی ہے اور یہ اذن ان کے لیے ہوتا ہے جن کے اندر رضائے الٰہی کی جستجو ہو۔
Top