Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Maaida : 32
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ١ؔۛۚ كَتَبْنَا عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَقَدْ جَآءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ١٘ ثُمَّ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ
مِنْ
: سے
اَجْلِ
: وجہ
ذٰلِكَ
: اس
كَتَبْنَا
: ہم نے لکھدیا
عَلٰي
: پر
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
اَنَّهٗ
: کہ جو۔ جس
مَنْ قَتَلَ
: کوئی قتل کرے
نَفْسًۢا
: کوئی جان
بِغَيْرِ نَفْسٍ
: کسی جان کے بغیر
اَوْ فَسَادٍ
: یا فساد کرنا
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
فَكَاَنَّمَا
: تو گویا
قَتَلَ
: اس نے قتل کیا
النَّاسَ
: لوگ
جَمِيْعًا
: تمام
وَمَنْ
: اور جو۔ جس
اَحْيَاهَا
: اس کو زندہ رکھا
فَكَاَنَّمَآ
: تو گویا
اَحْيَا
: اس نے زندہ رکھا
النَّاسَ
: لوگ
جَمِيْعًا
: تمام
وَ
: اور
لَقَدْ جَآءَتْهُمْ
: ان کے پاس آچکے
رُسُلُنَا
: ہمارے رسول
بِالْبَيِّنٰتِ
: روشن دلائل کے ساتھ
ثُمَّ
: پھر
اِنَّ
: بیشک
كَثِيْرًا
: اکثر
مِّنْهُمْ
: ان میں سے
بَعْدَ ذٰلِكَ
: اس کے بعد
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
لَمُسْرِفُوْنَ
: حد سے بڑھنے والے
اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کیا کہ جس کسی نے کسی کو قتل کیا بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا ملک میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سب کو قتل کیا اور جس نے اس کو بچایا تو گویا سب کو بچایا اور ہمارے رسول ان کے پاس واضح احکام لے کر آئے لیکن اس کے باوجود ان میں بہت سے ہیں جو زیادتیاں کرتے ہیں
آگے کا مضمون۔ آیات 32۔ 34: قانون قصاص کی بنیاد : آگے فرمایا کہ چونکہ انسان اپنی سرشت کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جس کے اندر ہابیل جیسے خدا ترس اور حق و عدل پر قائم رہنے والے بھی ہیں اور قابیل جیسے سنگ دل اور خونی بھی۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی شریعت میں قصاص کو ایک جماعتی فرض قرار دیا کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کا بچانے والا سب کا بچانے والا ٹھہرے گا۔ پھر اس قانون کی تجدید یاد دہانی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر اپنے نبی و رسول بھی بھیجے لیکن اس سارے اہتمام کی بنی اسرائیل نے کوئی پروا نہ کی بلکہ وہ برابر قابیل کی سنت بد کی پیروی میں خدا کی زمین میں فساد و خوں ریزی برپا کیے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کی سزا بیان کی ہے جو ایک اسلامی حکومت عادلہ کے اندر رہتے ہوئے اس کے قانون عدل و قسط کو درہم برہم کرنے اور ملک میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، عام اس سے کہ یہ کوشش نام کے مسلمانوں کی طرف سے ہو یا غیر مسلموں کی طرف سے، علانیہ ہو یا درپردہ سازشوں کی شکل میں، جتھہ بندی کر کے ہو، یا گنڈا گردی کی شکل میں۔ جو مفسدانہ سرگرمی بھی ملک کے سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی نظام کے لیے خطرہ بن جائے اور اس سے قانون اور نظم کا مسئلہ پیدا ہوجائے اس کے استیصال اور اس کے مجرموں کی سرکوبی کے لیے حکومت کے ارباب حل و عقد کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ قیام عدل کا جو فریضہ ان پر عاید ہوتا ہے وہ اس سے عہد برآ ہوسکیں۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے : مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ ۃ كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا ۭوَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا ۭوَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنٰتِ ۡ ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ " من اجل ذالک " کا مفہوم : " من اجل ذلک " کا مطلب یہ نہیں کہ بعینہ یہ واقعہ حکم قصاص کی فرضیت کا باعث ہوا۔ یہ واقعہ تو، جیسا کہ واضح ہوا، بنی اسرائیل کی تاریخ سے بہت پہلے کا ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ جان کے بدلے جان کا قانون، کچھ بنی اسرائیل کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ یہ قانون ہر ملت میں ابتداء سے موجود رہا ہے۔ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کی ملت میں بھی یہ قانون موجود تھا۔ حضرت نوح اور ان کی ذریت کو اس باب میں جو ہدایت ہوئی تھی وہ تورات میں یوں مذکور ہے۔ " آدمی کی جان کا بدلہ آدمی سے اور اس کے بھائی بند سے لوں گا۔ جو آدمی کا خون کرے گا اس کا خون آدمی سے ہوگا کیونکہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا ہے " (پیدائش باب 9: 5۔ 6)۔ اس وجہ سے یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ بعینہ یہ واقعہ بنی اسرائیل پر حکم قصاص کے وجوب کا باعث ہوا۔ یہ بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ یہہاں مقصود حکم قصاص کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ بنی اسرائیل اللہ کے میثاق کے معاملے میں اتنے جری اور بےباک ہیں کہ یہ جاننے کے باوجود کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کی حفاظت سب کی حفاظت ہے، برابر خدا کی زمین میں فساد برپا کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہی روش ان کی پہلے بھی رہی اور یہی روش ان کی آج بھی ہے۔ اس روشنی میں " من اجل ذلک " کا اشارہ نفس واقعہ کی طرف نہیں بلکہ شروفساد کی اس ذہنیت کی طرف ہوگا جس کا قابیل نے اظہار کیا اور جس کا اظہار ان لوگوں کی طرف سے برابر ہوتا رہتا ہے جو اس کی سنت بد کی پیروی کروتے ہیں۔ یعنی کمینہ جذبات اور شیطانی محرکات کے تحت اللہ کے بندوں کا خون بہاتے ہیں اور پھر اعتراف و اقرار اور توبہ و ندامت کے بجائے اپنی ساری ذہانت اس جرم کو چھپانے میں صرف کرتے ہیں ان کو اپنے جرم پر افسوس بھی ہوتا ہے تو اس پہلو سے نہیں ہوتا کہ ان کے ہاتھوں خدا کے بندوں کا سب سے بڑا حق تلف ہوا بلکہ جرم پوشی کی تدبیر میں اگر ان سے کوئی کوتاہی ہوجاتی ہے تو اس پر انہیں افسوس ہوتا ہے۔ قانون قصاص کی حکمت و عظمت : اَنَّهٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا ۭوَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا۔ یہ اس اصل حکم کا بیان نہیں ہے جو قصاص کے باب میں یہود کو دیا گیا۔ بلکہ اس کی دلیل اور اس کی حکمت و عظمت بیان ہوئی ہے۔ " جان کے بدلے جان " کا قانون تورات میں بھی ہے اور اس کا حوالہ اس سورة میں بھی آگے آرہا ہے۔ یہاں چونکہ مقصود یہود کی شرارت و شقاوت کو نمایاں کرنا ہے اس وجہ سے قانون قصاص کا اصل فلسفہ بیان فرمایا کہ یہود پر قتل نفس کی سنگینی واضح کرنے کے لیے ان کو یہ حکم اس تصریح کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ایک کا قاتل سب کا قاتل اور ایک کا بچانے والا سب کا بچانے والا ٹھہرے گا لیکن پھر بھی وہ قتل اور فساد فی الارض کے معاملے میں بالکل بےباک ہوگئے۔ قانونِ قصاص کی ذمہ داریاں ہر فردِ ملت پر : جو ملت قانون قصاص کی حامل اس فلسفہ کے ساتھ بنائی گئی ہو جس کا ذکر اوپر ہوا، اس پر چند ذمہ داریاں لازماً عاید ہوتی ہیں جس کی طرف ہم یہاں اشارہ کریں گے۔ ایک یہ ہر حادثۂ قتل پوری قوم میں ایک ہلچل پیدا کردے۔ جب تک اس کا قصاص نہ لے لیا جائے ہر شخص یہ محسوس کرے کہ وہ اس تحفظ سے محروم ہوگیا ہے جو اس کو اب تک حاصل تھا۔ قانون ہی سب کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر قانون ہدم ہوگیا تو صرف مقتول ہی قتل نہیں ہوا بلکہ ہر شخص قتل کی زد میں ہے۔ دوسری یہ کہ قاتل کا کھوج لگانا صرف مقتول کے وارثوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ پوری جماعت کی ذمہ داری ہے، اس لیے کہ قاتل نے صرف مقتول ہی کو قتل نہیں کیا بلکہ سب کو قتل کیا ہے۔ تیسری یہ کہ کوئی شخص اگر کسی کو خطرے میں دیکھے تو اس کو پرایا جھگڑا سمجھ کر نظر انداز کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ اس کی حفاظت و حمایت تا بہ مقدور اس کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ اس کے لیے اسے خود جوکھم برداشت کرنی پڑے۔ اس لیے کہ جو شخص کسی مظلوم کی حمایت و مدافعت میں سینہ سپر ہوتا ہے وہ صرف مظلوم ہی کی حمایت میں سینہ سپر نہیں ہوتا بلکہ تمام خلق کی حمایت میں سینہ سپر ہوتا ہے جس میں وہ خود بھی شامل ہے۔ چوتھی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی قتل کو چھاپتا ہے یا قاتل کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے یا قاتل کا ضامن بنتا ہے، یا قاتل کو پناہ دیتا ہے، یا قاتل کی دانست وکالت کرتا ہے یا دانستہ اس کو جرم سے بری کرتا ہے وہ گویا خود اپنے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے قاتل کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے کیونکہ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے۔ پانچویں یہ کہ کسی مقتول کے قصاص کے معاملے میں مقتول کے وارثوں یا حکام کی مدد کرنا بھی درحقیقت مقتول کو زندگی بخشتا ہے اس لیے کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔ ہم نے یہ اس اصول سے برآمد ہونے والی چند موٹی موٹی باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مزید غور کیجیے تو اس کی مزید حکمتیں واضح ہوں گی۔ پھر کس قدر قابل ماتم ہے اس قوم کا حال جو اس صول سے باخبر ہوتے ہوئے قتل و خوں ریزی اور فساد فی الارض میں بالکل بےباک ہوگئی۔ قانون کے ساتھ قانون کی یاد دہانی کا اہتمام : وَلَقَدْ جَاۗءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنٰتِ ۡ ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو یہ فرض بتا دینے ہی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اتمام حجت کے لیے برابر ان کے اندر خدا کے رسول بھی آتے رہے جو نہایت واضح احکام و ہدایات اور نہایت بلیغ اور پرزور تعلیمات و تنبیہات کے ذریعے سے ان کو جگاتے اور جھنجھوڑتے رہے کہ اللہ کے عہدومیثاق کی ذمہ داریوں سے یہ غافل نہ ہوجائیں لیکن اس سارے اہتمام کے باوجود یہ برابر خدا کی زمین میں مختلف قسم کی زیادتیوں کے مرتکب ہوتے رہے۔ فساد اور اسراف کا مفہوم : " افساد فی الارض " اور " اسراف فی الارض " دونوں میں مفہوم کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ زمین کا امن اور نظم اس قانون وعدل و قسط پر منحصر ہے جو خدا نے اس کے لیے اتارا ہے۔ جس طرح کائنات کے نظام تکوینی میں کوئی خلل پیدا ہوجائے تو سارا نظام کائنات درہم برہم ہوجائے، اسی طرح اگر اس نظام تشریعی میں، جو اس کے خالق نے اس کے لیے پسند فرمایا ہے، کوئی خلل پیدا کردیا جائے تو اس کا اجتماعی و معاشرتی اور سیاسی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، پھر نہ تو نظام تکوینی کے ساتھ اس کے نظام سیاسی کی ہم آہنگی ہی باقی رہ جاتی ہے اور نہ اس کے نظام اجتماعی و سیاسی میں ہی کوئی ربط قائم رہ جاتا ہے۔ اسی صورت حال کو یہاں افساد اور اسراف سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس اصولی حقیقت کے ساتھ ساتھ اس تاریخی حقیقت کو یاد رکھنا بھی یہاں ضروری ہے جس کا تجربہ ان آیات کے نزول کے زمانے میں، مسلسل مسلمانوں کو یہود کی طرف سے ہورہا تھا۔ یہود کے متعدد قبائل مثلاً بنو نضیر، بنو قریظہ، بنوقینقاع مدینہ کے حوالی میں آباد تھے۔ انہوں نے یوں تو مسلمانوں کے ساتھ امن و صلح اور باہمی حمایت و مدافعت کے معاہدے کر رکھے تھے لیکن ایک دن بھی انہوں نے ان معاہدوں کا کوئی احترام نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور مدینہ سے ان کے قدم اکھاڑ دینے کی سازشیں کرتے رہے۔ قریش نے مسلمانوں پر جتنے بھی حملے کیے سب میں در پردہ یہود شریک رہے۔ انصار اور مہاجرین کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کی بھی انہوں نے بارہا کوشش کی۔ صحابہ بلکہ خود نبی ﷺ کے قتل کی بھی انہوں نے بارہا تدبیریں کی۔ اگرچہ ان کی یہ چالیں بیشتر ناکام رہیں لیکن متعدد نہایت اندوہناک واقعات پیش بھی آئے۔ عورتوں اور بچوں کے اغوا اور قتل میں بھی یہ نہایت شاطر اور سنگ دل تھے۔ مسلمانوں کو ہر وقت یہود کی طرف سے اپنی جان اور عزت کے معاملے میں کھٹکا لگا رہتا تھا۔ حد یہ ہے کہ جن مسلمانوں کو وہ کسی قضیے کے طے کرانے اور کسی معاملے پر گفتگو کرنے کے لیے بلاتے تھے ان کو بھی ہلاک کرنے کی سازش پہلے سے تیار کر رکھتے۔ ثُمَّ اِنَّ كَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِي الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ میں اس ساری صورت حال کی طرف اشارہ ہے۔
Top