Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 28
فَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِیْفَةً١ؕ قَالُوْا لَا تَخَفْ١ؕ وَ بَشَّرُوْهُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ
فَاَوْجَسَ : تو اس نے محسوس کیا مِنْهُمْ : ان سے خِيْفَةً ۭ : ڈر قَالُوْا : وہ بولے لَا تَخَفْ ۭ : تم ڈرو نہیں وَبَشَّرُوْهُ : اور انہوں نے بشارت دی بِغُلٰمٍ : ایک بیٹے کی عَلِيْمٍ : دانش مند
تو اس نے ان سے ایک قسم کا اندیشہ محسوس کیا انہوں نے اس سے کہا، تم اندیشہ ناک نہ ہو اور اس کو ایک ذی علم فرزند کی خوش خبری دی۔
فاو حبس منھم خیفۃ قالو الا تخف، وبشروہ بغلم علیم (28) یعنی جب مہمانوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا تو قدرتی طور پر وہ اجنبیت کچھ اور بڑھی جو حضرت ابراہیم ؑ نے باول دہلہ محسوس فرمائی تھی اور انہوں نی اپنے دل کے اندر ایک اندیشہ محسوس کیا۔ سورة ہود میں اشارہ موجود ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے اندر اندیشہ ضیافت قبول نہ کرنے کے سب سے پیدا ہوا۔ فلما را ایدیھم لا تصل الیہ مکرھم واوجس منھم خیفۃ، (ھود : 70) (جب اس نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو اس نے ان کو بیگانہ محسوس کیا اور ان سے دل ہی دل میں ڈرا۔) معلوم ہوتا ہے ان لوگوں کے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھانے سے حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں یہ کھٹک پیدا ہوئی کہ یہ لوگ بشر نہیں ہیں، جیسا کہ انہوں نے گمان کیا ہے، بلکہ فرشتے ہیں۔ فرشتوں کا کھانا نہ کھانا ایک معروف بات ہے جو حضرت ابراہیم ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر سے مخفی نہیں ہوسکتی تھی۔ پھر ان کے علم میں یہ بات بھی رہی ہوگی کہ فرشتے جب آتے ہیں تو کسی بڑی مہم ہی پر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاس ہی قوم لوط کا فساد اخلاق اپنی آخری حد کو پہنچ چکا تھا جس کے سبب سے وہ ہر وقت خدا کے عذاب کی زد میں تھی۔ ان حالاتوقرائن کی موجودگی میں حضرت ابراہیم ؑ کے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہونا کچھ بعید نہیں تھا کہ شاید اب قوم لوط کی شامت آگئی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے تردد کو فرشتوں نے تاڑ لیا اور ان کو اطمینان دلایا کہ آُ کوئی اندیشہ نہ کریں اور مزید اطمینان پیدا کرنے کے لئے ان کو ایک ذی علم فرزند کی خوشخبری بھی دی۔ یہ ایک بہت بڑی خوش خبری تھی اس لئے کہ یہ مجرد فرزند کی نہیں بلکہ ذی علم فرزند کی خوش خبری تھی جس کے اندر یہ بشارت بھی مضمر تھی کہ یہ فرزند صاحب نبوت ہوگا۔ حضرت ابراہیم ؑ یہ خوش خبری پاکر خود اپنے باب میں تو مطمئن ہوگئے لیکن فرشتوں کی مہم کے باب میں ان کے ذہن میں سوال باقی رہا جس کا اظہار انہوں نے بعد میں کیا جس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی۔
Top