Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 8
اِنَّكُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍۙ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَفِيْ : البتہ میں قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ : بات جھگڑنے والی
بیشک تم ایک اختلاف میں پڑے ہوئے ہو۔
انکم لفی قول مختلف (8) مخالفین کو ملامت شاہد ہے کہ یہ ٹکڑا جو اب قسم نہیں ہے بلکہ مخالفین کے رویہ پر ان کو ملامت ہے۔ جو اب قسم اوپر گزر چکا ہے اور یہ دوسری قسم اوپر والی قسم ہی کی تکمیل ہے اس وجہ سے اس کے بعد جواب قسم کے اعادے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کی جگہ مکذبین کو سرزنش کردی گئی کہ تم لوگ ایک صریح قسم کے اختلاف اور تناقض فکر میں مبتلا ہو ورنہ ان شہادتوں کے ہوتے نہ وعید عذاب کو جھٹلانے کی گنجائش ہے، نہ وعدہ جزا و سزا میں شک کرنے کی قرآن مجید میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ وضاحت قرینہ کی بنا پر جواب قسم حذف کر کے اس کی جگہ کوئی سرزنش و ملامت کا جملہ رکھ دیا گیا ہے۔ اس کی ایک نہایت واضح مثال سورة ق میں گزر چکی ہے۔ ق والقران المجید، بل عجیوآ ان جآء ھم منذرمنھم نفسال الکفرون ھذا شیء عجیب (ق 2-1) یہ ق ہے۔ قرآن بزرگ و برتر کی قسم (یہ کلام الٰہی ہے) بلکہ ان کو تعجب ہوا کہ ان کے پاس ایک آگاہ کرنے والا انہی میں سے آیا تو کافروں نے کہا یہ تو عجیب بات ہے ! اس آیت میں دیکھ لیجیے جواب قسم مذکور نہیں ہے بلکہ اس کی جگہ مخالفین کو ان کی صریح دھاندلی پر ملامت کردی گئی ہے۔ یہی اسلوب سورة بروج میں بھی اختیار فرمایا گیا ہے۔ والسمآء ذات البروح والیوم الموعود و شاھد ومشھودہ قتل اصحب الاخدود (البروح 4-1) قسم ہے برجوں والے آسمان کی اور وعدہ کئے ہوئے دن کی اور شاہد و مشہور کی ! ناس ہوں آگ کی گھاٹی والے ! مخالفین کا تضاد فکر لول مختلف، قیامت اور جزاء و سزا کے باب میں ان کے تضاد فکر اور تضاد قول کی طرف اشارہ ہے۔ مشرکین عرب کے بارے میں ہم جگہ جگہ یہ لکھ چکے ہیں کہ ان میں سب قیامت کے کھلے منکر ہی نہیں تھے بلکہ انکار کرنے والوں کے ساتھ ان کے اندر ایک گروہ مذبذبین کا بھی تھا جو صریح طور پر انکار نہیں کرتے تھے بلکہ اس کو ایک مستبعد بات سمجھتے تھے۔ اسی طرح ان کے اندر ایک بہت بڑا گروہ ان لوگوں کا بھی تھا جو قیامت کو بعید از امکان تو نہیں سمجھتے تھے لیکن ان کا گمان یہ تھا کہ قیامت کے دن ان کا معاملہ ان کے شرکاء و شفعاء سے متعلق ہوگا، وہ اپنے پجاریوں کو اپنی شفاعت سے بچا لیں گے۔ یہ لوگ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے لئے وہ تمام صفتیں تسلیم کرتے تھے جو اس کی بدیہی اور لازمی صفات ہیں اور جو جزاء و سزا کو لازم کرتی ہیں دوسری طرف ان کے بدیہی نتائج ولوازم کے بارے میں یا تو مبتلائے شک تھے یا ان کا انکار کرتے تھے۔ ان کی اسی ذہنی الجھن کی طرف یہاں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ مقصود ان کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ قرآن ان کو جس بات سے آگاہ کر رہا ہے وہ تو اس کائنات کی ایک بدیہی حقیقت ہے بشرطیکہ یہ لوگ اپنے ذہن کو سیدھی راہ پر سوچنے دیں، اس میں غیر فطری اڑنگے نہ ڈالیں۔ پچھلی سورة میں فھم فی امر مریح کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔ ہمارے نزدک دونوں جگہ ایک ہی حقیقت واضح فرمائی گی ہے۔
Top