Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
(پس تم یاددہانی کرتے ہو، اپنے رب کے فضل سے نہ تم کوئی کاہن ہو اور نہ کوئی دیوانے ،
2۔ آگے آیات 29۔ 49 کا مضمون آگے کی آیات میں نبی ﷺ کی حوصلہ افزائی فرمائی گئی ہے کہ تم ان لوگوں کی یا وہ گوئیوں کی پروا کیے بغیر اسی قرآن کے ذریعے سے تذکیر کرتے رہو۔ جو لوگ تمہاری تکذیب پر اڑے رہیں گے وہ خود اپنی شامت بلائیں گے۔ اسی ذیل میں مخالفین کی ان باتوں کے سکت جواب بھی دیئے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی مخالفت میں وہ کہتے تھے اور جن کی طرف اوپر لفظ خوض سے ارشاد فرمایا ہے۔ ان کی اس ساری سخن سازی کو قرآن نے محض ایک چال قرار دیا ہے اور یہ اطمینان دلایا ہے کہ اس چال سے وہ دعوت حق کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے بلکہ یہ انہی کے خلاف پڑے گی۔ آخر میں آپ کو تسلی دی ہے کہ ان کو کوئی بڑے سے بڑا معجزہ بھی قائل کرنے والا نہیں بنے گا، یہ اسی دن قائل ہوں گے جس دن قیامت ان کے سر آ کھڑی ہوگی اور ہر پہلو سے ان کی بےبسی ان پر واضح ہو جائیگی تو تم صبر کے ساتھ اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو اور اس صبر کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ اپنے رب کی تسبیح کا اہتمام کرو۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمائیے 3۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (نذکر فما انت بنعمت ربک بکا ھن ولا مجنون (29)۔ (آنحضرت کو تسلی) و کے ذریعہ سے عطف دلیل ہے کہ یہ بات جو فرمائی جا رہی ہے متفرع ہے انہی باتوں پر جو اوپر گزر چکی ہیں۔ اوپر آپ نے دیکھا کہ قرآن کے انداز عذاب کی صداقت ثابت فرمائی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ آنحضرت ﷺ کو باندازِ تسلی خطاب کر کے ارشاد ہوا کہ تم جو یاددہانی کر رہے ہو وہ کرتے رہو۔ مخالفین کے طعنوں اور کچوکوں کی پروا نہ کرو، اگر یہ تمہیں کاہن یا خطبی کہتے ہیں تو انہیں بکواس کرنے دو۔ تم اپنے رب کے فضل سے نہ کوئی کاہن ہو نہ کوئی دیوانے۔ (بنعمت ربک) کے الفاظ یہاں دلیل کے محل میں ہیں، یعنی تم پر تمہارے رب کا جو فضل و انعام ہے وہ ایسی چیز نہیں ہے کہ آنکھیں اور عقل رکھنے والوں سے وہ مخفی رہ سکے، تمہاری زبان فیض ترجمان سے اللہ تعالیٰ نے جو چشمہ حکمت و معرفت جاری کر رکھا ہے اس کو کاہنوں کی خرافات سے کیا تعلق ! تم جس کردار کے حامل ہو، کس کاہن کے اندر اس کا کوئی ادنیٰ پر تو بھی پایا گیا ہے ؟ تم راست بازی اور حق گوئی کے مظہرو کامل ہو، اور کاہن دروغ گو اور لپایئے ہوتے ہیں۔ تم روح القدس سے فیض پاتے ہو اور کاہن شیاطین سے الہام حاصل کرنے کے لیے کان لگاتے ہیں اور اس میں بھی وہ بالکل جھوٹی نمائش کرتے ہیں۔ اس طرح تم کو جو دیوانہ کہتے ہیں وہ خود دیوانے ہیں۔ آخر تم سے بڑا فرزانہ، ذی ہوش، دانش مند اور حکیم انہوں نے کس کو پایا ہے۔ آنحضرت ﷺ پر مخالفین کا یہ اتہام ان کے اپنے پیغمبر کے بالکل خلاف تھا اس وجہ سے اس کی تردید میں زیادہ دلیلیں دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی لغویت خود اتہام لگانے والوں پر واضح تھی۔ وہ محض عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اس طرح کی باتیں کہتے تھے۔ سورة شعراء کی تفسیر میں ہم نے اس کے تمام ضروری پہلو واضح کردیتے ہیں۔ ایک نظر اس پر ڈال لیجئے۔
Top