Al-Quran-al-Kareem - At-Tur : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
اور بلاشبہ یقینا ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تو اس نے کہا بیشک میں تمام جہانوں کے رب کا بھیجا ہوا ہوں۔
(1) ولقد ارسلنا موسیٰ با یتنا الی فرعون وملائہ : یہاں موسیٰ ؑ کے ذکر کی مناسبت کئی طرح سے ہے، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے سے پہلے رسولوں سے سوال کا حکم دیا کہ کیا اس نے اپنے سوا کوئی معبود مقرر کئے ہیں جن کی عبادت کی جائے، تو جن رسولوں کی کتابوں یا پیروکاروں سے یہ معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں ان میں سب سے پہلے موسیٰ ؑ تھے، کیونکہ ان کی کتاب موجود تھی اور ان کی امت کے لوگ بھی موجود تھے۔ دوسری مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنے والے قوم کے سردار تھے، جو حق واضح ہونے کے باوجود اپنے مال و جاہ کی وجہ سے آپ کو حقیر کہہ کر آپ ﷺ کو رسالت کا اہل ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دلانے کے لئے یہ واقعہ ذکر فرمایا کہ یہی معاملہ موسیٰ ؑ کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کا تھا۔ فرعون نے بھی معجزات دیکھنے اور موسیٰ ؑ کی نبوت دل سے ماننے کے باوجود ملک مصر کا مالک ہونے پر فخر کیا اور موسیٰ ؑ کو ذلیل و حقیر قرار دے کر ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں وہ اللہ کے غضب کا نشانہ بنا اور اپنے لشکروں سمیت سمندر میں غرق کردیا گیا۔ مقصد قریش اور عربوں کو فرعون جیسے برے انجام سے ڈرانا ہے۔ (2) بایتنآ“ میں آیات سے مراد عصا اور ید بیضا ہیں، کیونکہ سب سے پہلے موسیٰ ؑ فرعون کے پاس گئے تو ان کے پاس یہی نشانیاں تھیں۔ (3) فقال الی رسول رب العلمین : موسیٰ ؑ نے وہ نشانیاں پیش کر کے فرعون کو رب ہونے کے دعوے سے منع کیا، اسے تمام پیغمبروں کی طرح توحید کی دعوت دی اور اکیلے رب العالمین پر ایمان لانے کا حکم دیا۔
Top